فیشنی سیکیولرازم و فیشنی مذہبیت


محمد عمران

\"Mجاوید احمد غامدی صاحب آج کل پاکستان میں نہیں رہتے ہیں کیونکہ ان کے بقول ان کی جان کو خطرہ تھا اس لئے وہ عارضی طور پر ملائشیا منتقل ہوگئے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے غامدی صاحب نے کہا کہ عورت امامت کروا سکتی ہے، اسلام میں بادشاہت کا تصور ہی نہیں، ریاست زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکتی، روزے رکھنا یا نماز پڑھنا خالصتاً ایک انفرادی عمل ہے ریاست کا اس میں کوئی کردار نہیں نہ ہی ریاست کوئی ایسے شخص کو سزا دے سکتی ہے جو روزے نہ رکھے اور نماز نہ پڑھے، ہاں البتہ علماء اس کے لئے سزا مقرر کرسکتے ہیں بلکہ یہ علماء کا کام ہے ریاست کا نہیں۔ ایسی بہت سی باتیں غامدی صاحب نے کہیں جو عام طور پر مسجدوں میں خطبے دینے والے علماء کم ہی کہتے ہیں یا کہہ نہیں سکتے۔ اسی لئے تو غامدی صاحب پر کبھی سیکیولر سکالر کا فتویٰ لگتا ہے تو کبھی ان کی داڑھی اور بالوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

خیر موضوع یہ نہیں بلکہ ہمارے ایک محترم دوست نے \”پاکستان کے فیشنی سیکیولر\” کے عنوان سے لکھا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو کامریڈ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ ایک فیشن ہے تو میں انتہائی انکساری کے ساتھ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انگریزی کے تقریباً تمام ڈکشنریوں میں اس لفظ کا مطلب ہے دوست، فیلو، ایک ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد یا سوشلزم و کمیونزم پر یقین رکھنے والے دوست۔ ایسے میں اگر کوئی کمیونزم پر یقین رکھتا ہو تو اس کا مطلب کبھی بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ لادین ہے یا کسی دین پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ کمیونزم عقیدہ نہیں بلکہ تجربہ ہے اور داس کیپٹل صرف معاشی فلسفہ پر بات کی گئی ہے۔ ایسے میں عقیدے اور تجربے کا مکسچر بنانا کبھی بھی کام نہیں آتا۔

لادینیت سے یاد آیا، ہم جب سکول میں تھے تو کچھ مذہبی سیاسی جماعتوں کے طلبا ہمیں یہ باور کراتے تھے کہ سیکیولرازم اصل میں لادینیت کا دوسرا نام ہے کیونکہ سیکیولر لوگ کسی بھی مذہب یا عقیدے پر یقین نہیں رکھتے، باالفاظ دیگر سیکیولر لوگ ملحد ہوتے ہیں اور اللہ کی ذات پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ سیکیولرازم اور اس کی تشریح میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبہ اسلام کے لوگ پیش پیش تھے، ہم گاؤں کے لوگ یہ محنت بھی نہیں کرتے کہ خود جا کر ڈکشنری میں دیکھ لے کہ یہ سیکیولرازم ہے کس بلا کا نام۔ خیر ہم نے یقین کرلیا اور شاید ابھی تک کرتے چلے آرہے ہیں کیونکہ سکول میں پڑھایا ہوا چورن کبھی بھی ذہن سے نہیں نکلتا۔ ایسے میں ایک دن ہم نے اس بلا کو جانچنا چاہا کہ سیکیولرازم ہے کیا چیز تو ایک ڈکشنری نے بتایا کہ بھئی سیکیولرازم وہ نظام ہے جس میں معاملات اور عبادات کو الگ رکھنے کا تصور پایا جاتا ہے اور ریاست میں حقوق صرف انسانیت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔ سیکیولر ریاست میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ عوام ہی ان کے لئے سب سے اہم عنصر ہوتا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ کچھ لوگ سیکیولرز میں ہر دین اور ہر عقیدے کو گالیاں دینا ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ غلط ہے کیونکہ سیکیولر لوگ ہر انسان کے عقیدے، مسلک و مذہب کی آزادی اور احترام پر یقین رکھتے ہیں۔

آج کل پاکستانی سوسائٹی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک سیکیولر دوسری مذہبی، لیکن ان دونوں میں فیشنی لوگ موجود ہیں۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ فیشنی لوگ صرف سیکیولرز میں موجود ہیں۔ بھئی ذرا سحری و افطاری میں ٹی وی لگاؤ خود ہی سمجھ میں آجائیگا کہ فیشنی لوگ کہاں پر ہے اور کون کس سے کھیل رہا ہے۔ ہم اگر ایک دوسرے پر تنقید کریں تو بے شک کریں لیکن تنقید کے لئے تصویر کا ایک رخ استعمال کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں اور یہ فیشن کی بیماری بھی دنیا کے کونے کونے میں پائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments