ایک اور ممتاز قادری اور سلمان تاثیر


ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جس کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ لیکن شاید ستانوے کی ستانوے فیصد آبادی کے اسلام اور عشق رسول پر شک ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کے ہر فرقے نے دوسرے فرقے کے خلاف کفر کے فتوے دے رکھے ہیں۔ آپ ساٹھ فیصد کے ہندو اکثریت کے ملک بھارت میں گاؤ ماتا اور اسلامی شعار کی توہین کی اتنی خبریں نہیں سنیں گے جتنی پاکستان میں ”توہین رسالت“ اور ”گستاخی رسول“ کی خبریں سنیں گے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ قانون ہے کہ جس پر چاہے مرضی توہین رسالت کا الزام لگا دو۔ ایک شخص چاہے قسمیں کھاتا رہے کہ وہ صدق دل سے محمد عربی ﷺ پر ایمان لاتا ہے لیکن اس کی کوئی نہیں مانے گا کیونکہ وہ آپ کے خلاف ہے۔

آسیہ بی بی کے خلاف فیصلہ آیا تو مذہب کے ٹھیکہ داروں نے یہ اعلان کر دیا کہ اس فیصلے کو سنانے والے سب جج گستاخ رسول ہیں۔ حکومت کا ہر فرد گستاخ رسول ٹھہرا۔ سپہ سالار کو بھی تواس سازش کا حصہ قرار دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان عہدوں سے قبل اپنے مسلمان ہونے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نمازیں، روزے، عمرہ، حج سب اسلامی شعار ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ ”یہودیوں کے ایجنٹ“ اور ”قادیانیوں کی سازش“ ہیں۔ ان ”اسلام کے ٹھیکیداروں“ کو کس نے اور کب یہ حق دیا ہے کہ جب چاہیں اور جس کو چاہیں ”گستاخ رسول“ اور ”یہودی و قادیانی“ کی سند عطا کردیں؟ یہ لوگ اسلامی تعلیمات کی صریح نافرمانی کر کے کونسا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں؟

ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ جب چاہے مذہب اور اسلام کا نام لے کر لوگوں کو کمراہ کیا جاتا ہے۔ اور جب یہ کہا جائے کہ یہ اسلام نہیں تو ”توہین مذہب“ ”سیکولر“ یا ”یہودی و قادیانی“ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اور آپ کو یہ ”سرٹیفکیٹ“ تب تک اپنے سینے پر سجانا پڑتا ہے جب تک کہ آپ ”اسلام کے ٹھیکداروں“ کا اسلام نہ مان لیں۔

دو دن سے سرے عام قتل کے فتوے دیے جا رہے ہیں اور سب کچھ اس محسن انسانیت کے نام پر کیا جا رہا ہے جس کا حکم تھا کہ ”جس نے کسی ایک شخص کا ناحق خون بہایا اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کیا“۔ معاشی مشکلات میں ڈوبے ہوئے اس ملک میں اربوں روپے کی دکانوں، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، بسوں اور عمارتوں کو جلانے کے بعد کون سی خدمت اسلام کی گئی ہے؟ کیا یائیس کروڑ کے اس ملک میں اب اگر کوئی بھی شخص آسیہ بی بی سے ہمدردی کرے گا یا تینوں ججوں کے فیصلے کو ٹھیک ٹھہرائے گا وہ گویا ”واجب القتل“ بھی ہوگا اور ”گستاخِ رسول“ بھی۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی آدھی سے زائد آبادی مسلمان ہونے کے باوجود ”واجب القتل“ اور ”گستاخ رسول“ ہے؟ یہ کیسا اسلام ہم پر وارد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ آزادی رائے اور آزادی اظہار ہی نہیں بلکہ آزادی سوچ پر بھی پابندی عائد ہے۔ کیا یہ اسلام دیکھا کر ہم پچھلی ایک صدی سے دنیا میں اسلام کو بدنام نہیں کر رہے؟ کیا ”مولوی“ کا دیا ہوا یہی وہ اسلام نہیں جو ساری دنیا میں ”دہشت گرد“ مشہور کر دیا گیا ہے؟

قصور کس کا ہے؟ ہم مسلمانوں کا یا ”یہود و نصاریٰ“ کا؟ سوشل میڈیا کے آج کے دور میں آپ جس قدر پابندی لگا دیں ان ”اسلامی ٹھیکیداروں“ کی مشتعل ویڈیوز اور پیغامات ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ اب صرف انتظار ہے تو یہ کہ اگلا ”ممتاز قادری“ کون بنے گا اور ”سلمان تاثیر“ بننا کس کے مقدر میں لکھا ہے۔ یہ دھرنے تو شاید کچھ گھنٹوں یا دنوں میں ختم ہو جائیں گے لیکن یہ سوچ، یہ منافرت اور یہ جہالت ختم نہیں ہوگی۔ اس لئے ان دھرنوں اور جلاؤ گھراؤ کے بعد بھی ”ممتاز قادری“ اور ”سلمان تاثیر“ کا انتظار کریں۔ بہت جلد یہ لوگ بھی سامنے آ جائیں گے۔ افسوس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).