کاریگر جس کے بنائے ہوئے بت دیو بن گئے


اک بستی تھی سادہ لوگوں کی اس بستی میں ہم رہتے تھے۔ امن سکون اور محبت لیکن وقت گزرتا گیا اور لوگ بدلتے گئے۔ بستی میں اک صنم تراش تھا جو اپنے فن میں کامل تھا۔ اس کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے بت بالکل اصلی معلوم ہوتے تھے۔ اس کے باتھ کے تراشے ہوئے بتوں اور زندہ انسانوں میں رتی بھر فرق معلوم نہ ہوتا تھا۔ بستی کے لوگوں میں سے کئی لوگ دراصل اس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے بت تھے۔ ہر بت دوسرے بتوں کو انسان سمجھتا تھا۔

اس کاریگر کی شہرت چہار جانب پھیل چکی تھی۔ لیکن اس کی تخلیق میں کچھ کمزوریاں تھیں۔ ابھی تک عام لوگ اس کے بنائے بتوں کی کمزوریوں سے ناواقف تھے۔ کاریگر نے بستی کے ایک نمایاں شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے اسی کی گلی میں اپنا بنایا ایک بت بھیجا۔ اس بت کا نام تھا زبان کا بت۔ اس بت نے زندہ انسانوں کے ساتھ گھل مل کر اس شخص کا اثر و رسوخ ختم کروا دیا۔

کاریگر اپنے اس بت سے بہت خوش ہوا اور اس نے انعام کے طور پر وہ گلی اس بت کو دے دی، گلی کے لوگ اس بت کے اندھے عقیدت مند بن گئے۔ بت اس گلی کے لوگوں سے خوب جی بھر کے نذرانے وصول کرنے لگا لیکن اسے ان نذرانوں میں سے ایک متعین حصہ کاریگر کو دینا پڑتا تھا۔ بت نے پڑوسی بستی کے مکھیا سے رابطہ کیا۔ پڑوسی بستی کے مکھیا کی کاریگر کے ساتھ نہی بنتی تھی۔ بت نے مکھیا کے ساتھ مل کر اس گلی سے کاریگرکو نکالنا چاہان۔ اب کاریگر کو احساس ہوا کہ بت اب اس کے قابو میں نہی رہا۔

کاریگر نے ایسے کسی وقت کے لیے بت کو بناتے وقت اس میں ایک کمزوری رکھی تھی۔ لوگوں کی بت کے ساتھ عقیدت مندی دیکھ کر کاریگر اسے براہ راست کچھ نہی کہہ سکتا تھا۔ کاریگر نے بت کو زبان دیتے وقت اس کی زبان کو بے لگام چھوڑ دیا تھا۔ کاریگر نے بت کو اکسایا اور ایک دن بت کی زبان بے لگام ہو گئی، بت کی بے لگام زبان نے بت کی عقیدت کے بھرم کو پاش پاش کر دیا اور یوں لوگوں نے خود ہی بت کو مسمار کر دیا۔ یوں کاریگر کو اپنے بنائے بت سے نجات مل گئی۔

اس واقعے کے بعد کاریگر بہت اداس تھا وہ ہر وقت بیزار اور پریشان رہتا تھا۔ پرانے بت اس کے اپنے وجود کے لیے خطرہ بن چکے تھے۔ اس کے اپنے بنائے بتوں میں سے ایک بستی کا حاکم بن بیٹھا تھا۔ کاریگر نے اس بت کو اپنی کٹھ پتلی بنا کر بستی میں بھیجا تھا لیکن عوام کی عقیدت نے اس بت کا دماغ بھی خراب کر دیا یہ بت بھی کاریگر کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔ یہ بت کاریگر کو بستی سے نکالنے چاہتا تھا۔ کاریگر کے بنائے ہوئے تمام بت اس کے لیے بعد میں خطرہ ثابت ہوئے تھے اس لیے اب کی بار کاریگر نے کچھ نیا سوچا اس نے ایک ایسا بت تخلیق کیا جو بظاہر ایک درویش تھا۔

کاریگر پر امید تھا کہ یہ درویش اور ملنگ بت بستی کے موجودہ حاکم سے اس کی جان چھڑوا دے گا، درویش بت بہت ہی قابل ثابت ہوا اپنی قناعت پسند طبیعت کے باعث اس نے کاریگر کو اس مشکل سے نکال لیا اور پرانے بت کا راج ختم ہو گیا۔ لیکن درویش نے اب طاقت کا مزہ چکھ لیا تھا۔ کاریگر کو اب درویش کی ضرورت نہی رہی تھی لیکن درویش بھی جان گیا تھا کہ لوگوں کو عقیدت کے نام پر بے وقوف بنانا کتنا آسان ہے۔

کاریگر کے راستے کے سارے کانٹے ہٹ گئے تھے اب حکومت اس کی کٹھ پتلیوں کے پاس تھی کاریگر نے ان نئی کٹھ پتلیوں کی تخلیق کے وقت ان میں شعور اور دانائی کا آمیزہ شامل نہی کیا تھا اس لیے اب اس کا راج مستحکم تھا۔ منصف سے لے کر حاکم تک سب اس کے بنائے بت تھے۔ ایسے میں ایک متنازع مقدمہ کا فیصلے آگیا۔ کاریگر کی آشیرباد سے منصف نے فیصلہ دے دیا۔ کاریگر کو اب یہ یاد بھی نہ رہا تھا کہ درویش نام کا ایک صنم اس نے کبھی تراشا تھا۔

اسی دوران درویش نے عوام پر اپنی عقیدت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ فیصلہ آنے کے بعد درویش نے بغاوت کر دی کاریگر نے کبھی اس کا تصور بھی نہی کیاتھا۔ بستی کا ہر رستہ ہر گلی درویش کے قبضے میں تھی۔ کاریگر درویش کے عقیدت مندوں کے سامنے آنے کی جرات نہی کر پا رہا تھا۔ کبھی جو عقیدت مند کاریگر کی خیرات کو تبرک سمجھتے تھے آج وہ کاریگر کی جان کے پیاسے تھے۔ کاریگر اب اپنے راج کو ڈوبتے دیکھ رہا تھا تو اسے یاد آیا کہ کیسے زبان کا بت اور تاجر بت بھی اس کے خلاف ہو گئے تھے۔

اب درویش بھی اس کی جان کا دشمن تھا۔ کاریگر کو یاد آیا کہ جب وہ اس بستی میں آباد ہوا تھا تب اس بستی کے معمار اول نے اسے ایک نصیحت کی تھی، معمار اول ایک بت نہیں بلکہ انسان تھا اور انسانوں کے فیصلوں بتوں سے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں۔ اسی معمار اول نے کاریگر کو بت بنانا سکھایا تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے کاریگر کویہ نصیحت کی تھی کہ تمہارا کام بت بنانا ہے بتوں پر راج کرنا نہیں، اگر تم نے کبھی بتوں کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعما ل کیا تو تمہارے بنائے بتوں میں ایک کمزوری پیدا ہو جائے گی۔

کاریگر کو یاد نہی آرہا تھا کہ معمار اول نے کس کمزوری کا ذکر کیا تھا۔ لیکن درویش نے عوام کے بت، زبان کے بت اورطاقت کے بتوں کے انجام سے اندازہ لگا لیا تھا کہ کاریگر کی نیت جب جب خراب ہوتی ہے۔ تب تب اس کے بنائے بت دیو بن جاتے ہیں اسی لیے درویش ایک دیو میں بدل چکا تھا اور کاریگراب اس دیو سے اپنی جان بچاتا پھر رہا تھا۔ کاریگر ہمیشہ اپنے بنائے بتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے بت تراشتا رہا کوئی اسے سمجھا نہ سکاکہ پرانے دیو نئے دیو تراشنے سے ختم نہیں ہوں گے بلکہ کاریگر کو اپنی نیت صاف کرنی ہو گی۔

درویش یہ راز جان چکا تھا لیکن کاریگر اس سے بے خبر رہا اور درویش جانتا تھا کہ کاریگر کی نیت کا کھوٹ جلد ختم ہونے والا نہی اس لیے جب تک کاریگر کی نیت کا کھوٹ سلامت ہے تب تک درویش دیو بھی سلامت ہے۔ یہ قصہ ماضی قریب کا ہے اب وہ بستی تو معدوم ہو چکی لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اس بستی کے آس پاس بسنے والے لوگ اب بھی اس کاریگر کا قصہ بیان کرتے ہیں جس کے بنائے ہوئے بت دیو بن جاتے تھے۔ خدا جانے اس کہانی کا نجام کیا ہوا اور کاریگر کی نیت صاف ہوئی یا درویش دیو کا راج برقرار رہا لیکن اب وہ بستی صفحہ ہستی سے مٹ چکی۔ خدا کاریگر پر رحمتیں نازل کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).