نئی عجم اسپرنگ کا آغاز


پہلی عرب اسپرنگ یعنی عرب موسم ِبہار 1848 کے انقلابوں کو کہا جاتا ہے۔ عراق جنگ کے بعد مختلف مبصرین اور بلاگرز نے جمہوریت کے فروغ کے لئے اس اصطلاح کو استعمال کیا۔ پہلی بار عرب اسپرنگ کو بطور اصطلاح امریکی سیاسی جرنل فارن پالیسی میں پولیٹکل سائنٹسٹ مارک لینک نے استعمال کیا۔

دوسری عرب اسپرنگ سن 2010، تیونس میں احتجاجی مظاہروں کے ساتھ شروع ہوئی جو عامرانہ طرزِ حکومت اور پسماندگی کے خلاف تھا۔ تیونس انقلاب کے اثرات پانچ دوسرے ملکوں لیبیا، مصر، یمن، شام اور بحرین میں بھی پھیل گئے۔ جہاں بھی حکومت نے عوام کو آڑے ہاتھو ں لیا، بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ دنیا نے عرب اسپرنگ کے دوران رونما ہونے والے ہولناک واقعات کو دیکھا اور عبرت حاصل کی لیکن شاید پاکستان کے سادہ لوح عوام نے اس بین الاقوامی سازش کو سمجھا ہی نہیں۔

ماضی میں کئی بار پہلے بھی پاکستان میں عدم استحکام کی کوششیں کی جاچکی ہے لیکن ہر بار پاکستان معجزاتی طور پر اُن مشکل حات سے نکل آیا۔ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان معاشی طور پر بد حالی کا شکار رہا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہی حالات ہیں جن کو پیدا کرنے میں ہم سب شامل ہیں۔

اس نفسا نفسی کے دور میں بھی ایک مضمون ایسا ہے کہ جو لوگوں میں اشتعال پیدا کر سکتا ہے۔ مذہب ویسے تو ہر دور میں ہی ایک حساس مضمون رہا ہے لیکن فی زمانہ لوگ کچھ زیادہ ہی مذہبی حساس ہو گئے ہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کی کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں اسی طرح برِ صغیر کے مسلمانوں کی جان اُن کے نبی ﷺکے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔

بچپن سے بریلوی حلقہ احباب میں وقت گُزرا لہٰذا نبی اکرم ﷺ اور اُن کی آل و اصحاب سے والحانہ محبت پیدا ہونا تو ایک فطری سی بات تھی۔ عالمِ جوانی میں ہمارا بھی دل چاہتا تھا کہ ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ کرنے والوں پر قہر ِ الٰہی بن کر ٹوٹ پڑیں لیکن گزرتے وقت نے آگہی کی دولت سے نوازا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تجربے کاکوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔

آقائے نامدار، نبیوں کے سردار، بے کسوں کے مددگار سہڑے مدنی سرکارﷺ کے حالاتِ زندگی جاننے کا شرف حاصل ہوا، اصحابِ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے واقعاتِ زندگی پتا چلے اور جب کربلا والوں کی جاں فشانی کی داستانیں سنیں تو یہ جانا کہ اصل اسلام تو قربانی میں پوشیدہ ہے۔ وقت کی قربانی، مال کی قربانی، اولاد کی قربانی، جان کی قربانی الغرض قربانیوں کا ایک عظیم سلسلہ ہے جسے ہم آج اسلام کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں۔

آج جو کچھ بھی میرے ملک کی سڑکوں پر ہو رہا ہے مجھے نہیں سمجھ آتا کہ قرآن پاک کی کس آیت کے تحت یہ دنگا فساد کیا جارہا ہے۔ کس حدیث کی پیروی میں عوامِ پاکستان کو اس تکلیف میں ڈالا ہوا ہے، فقہ کی ایسی کونسی کتاب ہے جو عوامی گُزرگاہوں کو بند کرنے اور عوامی املاک تباہ کرنے کی دلیل فراہم کرتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ پیارے نبی پاک ﷺ کی محبت میں کیا جا رہا ہے تو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ آپ غلطی پر ہیں ہمارے سرکار ﷺ نے کبھی ایسی تعلیم نہیں دی، بلکہ وہ تو جنگ پر جانے والوں کو بھی تنبیہ کیا کرتے تھے کہ دشمن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھنا، ہر ممکن کوشش کرنا کہ کسی صورت جنگکیے بغیر ہی معاملات حل کر لئے جائیں۔

آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ اگر نبی پاک ﷺ کی ناموس کا اتنا ہی خیال ہے تو مسلم اُمہ کو یکجا کرنے کے بارے میں غور کریں اور کوئی لاحہ عمل تیار کریں، ناکہ امّت کی مزید تقسیم کا باعث بنیں، ویسے ہی کیا کم امّت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔

اسلام کے لغوی معنٰی امن کے ہیں، اشتعال انگیزی کسی بھی صورت مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔ وہ لوگ جو ان مظاہروں میں شریک ہیں اور خلقِ خدا کی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں یقیناً وہ حقوق العباد کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔

عدالتی فیصلوں کے خلاف سڑکوں اور شاہراہوں پہ احتجاج کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جب عدالتی فیصلے کی مخالفت عدالت میں کی جاسکتی ہے تو اِس مسئلے کو سڑکوں پے لانے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا اور آپ کے احتجاج سے فیصلہ کرنے والوں یا اُس سے فائدہ اُٹھانے والوں کا کیا نقصان ہو رہا ہے؟ بے گناہ عوام جن کا اِن مسائل سے دور دور کا بھی واستہ نہیں ہے وہ بلا وجہ پس رہے ہیں۔ ذرا سوچیں تو سہی کہیں ہم دشمنوں کی سازشوں کا شکار تو نہیں ہورہے، ذرا سوچیں تو سہی یہ نئی عجم اسپرنگ کا آغاز تو نہیں جو آج ہم بلا وجہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).