ایک عورت کا مقدمہ اور مذہبی لیڈر


لوگوں کا ہجوم بہت غصے میں تھا وہ اس عورت کو جِس پر مذہب اور خدا کی توہین کا اِلزام تھا پکڑ کر لا رہے تھے اور مار بھی رہے تھے، عورت اب اِس تشدد سے اِس قدر نڈھال ہو چکی تھی کہ اپنے بچاؤ سے بھی قاصِر تھی اور نیم مردہ تھی۔ ہجوم مذہبی نعرے لگاتا ہوا اس کو جرگے ( عوامی عدالت ) میں لے آیا جہاں مذہبی رہنما اور پیشوا بیٹھے تھے اور اس عورت کی زِندگی موت کا فیصلہ بس ہونے کو ہی تھا۔ لوگوں کے غصیلے نعرے اس عورت کی قِسمت کا لِکھا فیصلے سے پہلے ہی سنا رہے تھے۔ موت اب اس کا مقدر تھی ایک بھیانک اور دردناک موت۔

عورت پر اِلزام تھا کہ اس نے مذہب اور خدا کی بے حرمتی اور توہین کی ہے اور اس کی سزا بس موت تھی صِرف موت۔ اس عورت کو اِلزامات بتائے گئے اور لوگوں کی گواہیاں بھی۔ مذہبی رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ اِس عورت کو بھیانک موت دِی جائے۔

عورت نے اِلزامات سن کر پہلے تو ماننے سے اِنکار کیا لیکن اس کی جب ذرا ”لِترول“ کی گئی تو وہ فوری جان جانے کے خوف سے مان گئی۔

اب عورت کو عدالت لے جایا گیا تو اس نے وہاں عدالت جاکر اپنا بیان بدل لِیا اور اس کے خِلاف پیش کردہ گواہ بھی اپنے اپنے بیان میں ایک الگ الگ کہانی سنا رہے تھے۔ عدالت نے کہا کہ یہ تو بات جھوٹی محسوس ہوتی ہے لہٰذا عورت کو بری کردِیا۔ اِس پر مذہبی طبقہ بِپھر گیا اور عدالت کا فیصلہ ماننے سے اِنکار کردِیا ملک میں مذہبی طبقہ طاقت میں تھا۔ انھوں نے آگ لگا کر رکھ دِی۔

ٹھہریں! کہیں آپ کو یہ غلط فہمی تو نہیں ہوگئی کہ میں آسیہ مسیح کی یا پاکستان کی بات کررہا ہوں؟ نہیں، نہیں یہ برطانیہ کی بات ہے جب عورتوں پر جادو کرنے اور جادوگرنی ہونے کا اِلزام لگا کر انھیں آگ میں زِندہ جلادِیا جاتا تھا کیونکہ یہ مذہب اور خدا کی توہین میں آتا تھا کہ کوئی جادو کرے اور شیطانی عمل یا شیطان کی عِبادت کا حِصہ بنے۔ جب مذہب کے نام پر بس اِلزام لگانا ہی کافی ہوتا تھا۔ اِس وقت بس جو مذہبی رہنماؤں نے کہہ دِیا وہی ٹھیک ہوتا تھا۔

یورپی، امریکی اور برطانوی عیسائی بڑے گندے لوگ تھے وہ اپنی مذہبی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی کرگزرتے تھے، وہ ہر قانون سے خود کو بالاتر سمجھتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان تو ایسے نہیں ہیں ہم تو اِمام ابو حنیفہ کے ماننے والے ہیں جو اِقبالِ جرم جو عدالت میں بھی کیا جائے تو ملزم کے مکرنے پر اس کو دوبارہ اپنی صفائی و گواہی کا موقع دیتے ہیں۔ تو کیا آج کے ہمارے علماء و مذہبی رہنما عیسائیوں کے نقشِ قدم پر چل نِکلے ہیں؟

آگے چلنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یہ چند فرمودات ملاحظہ فرمائیں جو انھوں نے کہے تو علماء یہود کے بارے میں تھے جو ہمارے علما کی طرح ہی خود کو انبیا کا وارث اور قوم کا رہبر گردانتے تھے، مماثلت پہ غور کرتے جائیں۔

۔ ۔ ۔ ۔

انجیل (متی باب 23 ملخص) سے چند اقتباسات۔

” پس جو فقِیہ اور کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکِن ان کے سے کام نہ کرو کِیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہِیں۔
وہ ایسے بھاری بوجھ جِن کو اٹھانا مشکِل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ ان کو اپنی انگلی سے بھی ہِلانا نہِیں چاہتے۔

وہ اپنے سب کام لوگوں کو دِکھانے کو کرتے ہیں کِیونکہ وہ اپنے تعوِیز بڑے بناتے اور اپنی پوشاک کے کِنارے چوڑے رکھتے ہیں۔
اور ضِیافتوں میں صدرنشِینی اور عِبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسِیاں

اور بازاروں میں سلام اور آدمِیوں سے ربّی کہلانا پسند کرتے ہیں۔
اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کِیونکہ نہ تو آپ داخِل ہوتے ہو اور نہ داخِل ہونے دیتے ہو۔

[اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دِکھاوے کے لِئے نماز کو طول دیتے ہو۔ تمہیں زیادہ سزا ہوگی۔ ]
اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ ایک مرید کرنے کے لِئے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اسے اپنے سے دونا جہنّم کا فرزند بنا دیتے ہو۔

اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ پودِینہ اور سونف اور زِیرہ تو دہ یکی دیتے ہو پر تم نے شرِیعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی اِنصاف اور رحم اور اِیمان کو چھوڑ دِیا ہے۔ لازِم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔

اے اندھے راہ بتانے والو جو مچھّر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نِگل جاتے ہو۔
اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ پیالے اور رِکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔

اے اندھے فرِیسی! پہلے پیالے اور رِکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔
اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھِری ہوئی قبروں کی مانِند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دِکھائی دیتی ہیں۔ مگر اندر مردوں کی ہڈیّوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔

اِسی طرح تم بھی ظاہِر میں تو لوگوں کو راستباز دِکھائی دیتے ہو مگر باطِن میں رِیاکاری اور بے دِینی سے بھرے ہو۔
اے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تم پر افسوس! کہ نبِیوں کی قبریں بناتے ہو اور راستبازوں کے مقبرے آراستہ کرتے ہو۔

اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانہ میں ہوتے تو نبِیوں کے خون میں ان کے شرِیک نہ ہوتے۔
اِس طرح تم اپنی نِسبت گواہی دیتے ہو کہ تم نبِیوں کے قاتِلوں کے فرزند ہو۔

غرض اپنے باپ دادا کا پیمانہ بھردو۔
اے سانپو! اے افعی کے بچّو! تم جہنّم کی سزا سے کیونکر بچو گے؟

اے یروشلِیم! اے یروشلِیم! تو جو نبِیوں کو قتل کرتی اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتی ہے! کِتنی بار میں نے چاہا کہ جِس طرح مرغی اپنے بچّوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تم نے نہ چاہا! ۔

دیکھو تمہارا گھر تمہارے لِئے وِیران چھوڑا جاتا ہوں۔ “
۔ ۔ ۔ ۔

اب ذرا غور کریں کہ ہمارے آج کے پاکستان کے علماء کرام اور مذہبی رِہنما کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ان کی ذِہنی سطح یورپ کے ڈارک ایجز کے دور میں نہیں رکی ہوئی؟ بقول اعجاز اعوان صاحب کیا ان کے نزدیک یہی لطف کی بات ہے کہ نعوذ باللہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی گئی ہے؟ جبکہ حالات و واقعات اور تفصیلی فیصلہ یہ بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ (فیصلے کی تفصیل پڑھ لیں ) آخر کیوں ہمارے سادہ لوح مسلمان، مولوی خادم صاحب اور پیر افضل قادری صاحب جیسے انتشار پسندوں کی باتوں میں آکر انتشار و فساد پھیلانا چاہتے ہیں اور پھِر کہتے ہیں کہ ہم تو اِصلاح کرنے والوں میں سے ہیں؟

کیا یہ لوگ ہمیشہ ریاست کو ایسے ہی یرغمال بناتے رہیں گے؟ کیا ہر بار جب بھی ایسا کوئی مِلتا جلتا واقعہ ہوگا تو ریاست اِن کے سامنے ایسے ہی سرنگوں ہو جایا کرے گی؟ بدقسمتی سے میرا جواب ہاں میں ہے۔ ماضی قریب میں پی ٹی آئی نے یہی مذہبی کارڈ کھیلا، اِن کے ہاتھ مضبوط کیے، آرمی نے اِن کو ہزار ہزار روپے دے کر اِن کو مزید تھپکی دِی۔ آج ان کا حوصلہ اِتنا بڑھ گیا ہے کہ پیر افضل قادری آرمی میں باقاعدہ بغاوت کی دھمکیاں دے رہا ہے، جرنیلوں کو آرمی چیف کے خِلاف اکسا رہا ہے۔ لیکن آپ ابھی مزید اِنتظار کرلیں جب یہ آگ آپ کے اپنے دامن کو خاکستر کردے گی تب آپ کو سمجھ آئے گی۔

مذہب کو اپنے مذموم سیاسی و سماجی مقاصد میں استعمال کرنا بے حد کراہت آمیز معاملہ ہے لیکن ماضی سے لے کر آج تک ہماری تقریباً ہر سیاسی جماعت اِس میں ملوث رہی ہے اور اب یہ عناصر ریاست سے بھی بڑے ہوچکے ہیں۔ افسوس نہ ہم نے ماضی سے کچھ سیکھا اور نہ اب سیکھنے کو تیار ہیں، بربادی ہمارا مقدر ہے اور چاہے جِتنے مرضی مذاکرات کرلیں، اِن کے جو بھی مطالبات ہیں مان لیں لیکن یہ ایک ایسا جِن ہے جو اب بوتل سے باہر آچکا ہے اور اِس کو واپس بوتل میں ڈالنا ناممکن نا سہی ازحد مشکل ضرور ہے اور میری ناقِص رائے میں فی الحال ہماری ریاست کی سکت یا قوتِ فیصلہ سے باہر ہے تو اِس لئے سر جھکا کر اِن کی ہر بات پر لبیک، آمناً و صدقتاً کہتے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).