فاطمہ کا معاشرہ بکھر رہا ہے


مزدور آدمی ہوں۔ ہفتے کے دن بھی دفتر میں دال روٹی کما رہا ہوتا ہوں۔ ایسا ہر ہفتے کے روز ہوتا ہے۔ اتوار بھی کبھی کبھار ہی چھٹی کی عیاشی دیتا ہے۔ کبھی بہت زیادہ تھے، مگر میرے اب بہت کم دوست ہیں۔ اور ان میں سے بھی تعداد کہیں کم ہے جو زندگی میں کی جانے والی میری محنت سے واقف ہیں۔

میں یہ محنت، مناسب شہری آزادی اور معاشی آسودگی کی منزل کے حصول کے لیے کرتا ہوں۔ مگر سوچتا ہوں کہ گزرنے والے پچھلے تین چار روز اگر میرے ملک کے مستقبل کا پتا دے رہے ہیں، تو میں پاکستان میں کیوں موجود رہوں کہ گزرنے والا ہر برس، پاکستان میں مڈل کلاس رویوں کی بتدریج موت ہی تو لا رہا ہے؟

کتنی ہی مشکل سے تو غربت کے جھکڑوں سے گزر اور محرومیوں کے ریگزار میں چھالے لیے وہاں تک پہنچا ہوں، کہ جہاں تک پہنچا ہوں، تو اگر آنے والے برسوں میں میرے ملک میں مذہب، ناموس اور سیاست کے نام پر درندگی، بے سمتی، تشدد، ریاستی و غیرریاستی اداروں کی بدمعاشی ہی ملنا ہے تو کیوں نہ وطن عزیز سے بھاگ نکلا جائے؟

کوئی ایک کروڑ تو ہجرت کر چکے، میرے ایک کے بھی نکل جانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی کے مر جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، اور کائنات کی گھڑی چلتی رہتی ہے۔ ہم نامعلوم سے آتے ہیں۔ معلوم میں رہتے ہیں۔ اور پھر نامعلوم کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ مگر معلوم میں رہتے ہوئے، اچھا تو رہنا چاہیے۔ یا پاکستان میں ریاستی اور غیرریاستی غنڈوں کی بے سمت حماقتیں اس معلوم کو بدتر کیے چلے جاتی ہیں۔ یہ غنڈے نامعلوم جانتے ہیں یا نہیں جانتے کہ جب معاشرے اور ملک بکھرتے ہیں تو لوگ تنکوں سے بھی ہلکے ہو جاتے ہیں جنہیں مقدر (اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ویسے؟ ) کی ہوائیں اِدھر اُدھر اڑائے لیے پھرتی ہیں۔

ریاستی غنڈے مگر کہتے ہیں کہ پاکستان سے غیرمشروط محبت کرو۔ اور غیرریاستی غنڈے کہتے ہیں کہ جو مقدر میں لکھ ڈالا گیا ہے، اس کو بھی غیرمشروط تسلیم کرو۔ دونوں صورتوں میں سوچنے والے خود کو بے بس اور لاچار پاتے ہیں۔

لاچاری کی کیفیت میں، جناب خالد حسینی کی تازہ ترین کتاب Sea Prayer میری تازہ ترین قلبی واردات ہے۔ اس میں ایک والد، اپنے بیٹے، مروان سے مخاطب ہے، جو شام کے شہر ”حمص“ سے ہجرت کرنے کو تیار اپنے خاندان سمیت سمندر کے کنارے، ہڈیوں میں اتر جانے والی سرد رات کو بیٹھا ہے۔

میرے وطن کے ذہین لوگوں نے مروان سے کیا ناتہ جوڑنا ہے بھلا؟ تو سوچا کہ اس چھوٹی سی آزاد نظم پر مبنی کتاب سے ماخوذ اک خیال بصورتِ نثر، آپ کی نذر کرتا ہوں جس کا عنوان ہے ”فاطمہ اور سمندر۔ “

”میری پیاری فاطمہ، میں جب اپنے گاؤں میں تھا، تو گرم راتوں کو چھت پر سونے کے لیے چارپائیاں بچھاتا تھا۔ یہ تمھارے دادا کا گھر تھا۔ صبح کے وقت کی ٹھنڈی ہوا میں جاگتے ہوئے تم میرے بازؤں میں سمٹی ہوتی تھیں تو تمھاری دادی صبح کے کھانے کی تیاری کررہی ہوتی تھیں۔ تب سورج مشرق سے طلوع ہورہا ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ تمھاری ماں تمھیں کتنے پیار سے بازؤں میں اٹھا کر لے جاتی اور سکول کے لیے تیار کرتی۔ تم صرف چار برس کی تھیں۔ تم اس کی انگلی تھامے سکول جاتی تھیں۔

میرے گاؤں کے بازار سے تمھاری دادی تمھارے لیے چوڑیاں اور پراندے لاتی تھیں اور میں تمھیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر اس چھوٹے سے بازار میں لے جایا کرتا تھا۔ گاؤں میں چھوٹی، مگر زندگی تھی۔

پھر مگر چند بدعقل مگر با اختیار لوگوں نے مقدس لوگوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ملائے۔ میرا گاؤں برباد ہوتا چلا گیا۔ خون بہا۔ مظاہرے ہوئے۔ بم پھٹے۔ لاشے بکھرے۔ بچے قتل کر دیے گئے۔ جوان کاٹ دیے گئے۔ بزرگ مار دیے گئے۔ تقدس و تقدیس کے نام پر انفاق کو نفاق بنا ڈالا ان بدعقل، با اختیار اور مقدس لوگوں نے۔

ہم یہ سب کہیں بہت دور پیچھے چھوڑ چلے آئے ہیں۔ میرے گاؤں میں خون ہے۔ آسمان سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ روز نازل ہوتی ہیں۔ ہر وقت نازل ہوتی ہیں۔
سمندر کنارے بیٹھے، اس یخ بستہ ساحل پر ہم سب ہیں : پنجابی، بلوچ، سندھی، پشتون، سرائیکی، مہاجر۔ سب!

سب کی آنکھوں میں خوف ہے۔ زندہ رہنے اور بھاگ نکلنے کی خواہش ہے۔ سامنے مہیب اور خوفناک سمندر ہے اور اس سمندر کے دوسرے کناروں پر میں نے سنا ہے کہ لوگ ہم سے بیزار ہو چکے ہیں۔ تم جاگتی ہو اور مجھ سے پوچھتی ہو کہ ہم کہاں ہیں۔ تو میں تمھیں بتاتا ہوں، میری بیٹی فاطمہ: ہم سمندر کنارے، کہیں دور دیسوں کے مسافر بننے والے ہیں۔ ان دیسوں میں روشنی ہو گی، امن اور سکون ہو گا۔ وہاں کے با اختیار اور مقدس لوگ بدعقل اور بدفہم نہ ہوں گے۔ تم وہاں جی سکو گی، ہاں مگر وہاں تمھاری دادی اور دادا نہ ہوں گے۔

میں تمھیں بتاتا ہوں، میری بیٹی فاطمہ: سمندر بہت بڑا ہے، مگر وہ بچوں کو ہچکولے نہیں، جُھولے دیتا ہے۔ تم پریشان مت ہونا۔ بس ذرا سورج نکلنے دو۔ سورج کی پہلی کرن جب تمھارے گالوں پر پڑے گی، تو میں سمندر سے کہوں گا کہ دیکھ: یہ میری بیٹی فاطمہ ہے۔ تم اس کے ساتھ الان کردی جیسا سلوک نہ کرنا۔ وہ تین سال کا تھا جس کو تُو نے ڈبو دیا۔ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ میں مر بھی جاؤں تو اس پر مہربان رہنا۔ “

بکھرے ہوئے معاشروں کے بچوں پر قدرت بھی رحم نہیں کھاتی۔ قدرت کبھی بھی، کسی پر بھی، کوئی بھی رحم نہیں کھاتی۔
با اختیار اور مقدس لوگو: خیال کرو۔ فاطمہ کا معاشرہ بکھر رہا ہے۔ خیال کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).