آسیہ کیس، مذہبی بیانیہ اور ثمرات


شاتمِ رسول کے بارے میں پیدا ہونے والی کشیدگی اور اس پر اہلِ مذہب کا جذباتی بیانیہ جہاں ملک کے لئے نقصان دہ ہے وہیں مستقبل میں اس کے اثرات مذہب پر نہایت برے ہوں گے۔ اس وقت جو مسئلہ کشیدگی کا باعث ہے اس کے مذہبی و قانونی، تاریخی و معاشرتی کئی پہلو ہیں۔ سب سے پہلی بات سب و شتمِ رسول کی حیثیت کی ہے کہ مذہب میں اس شنیع فعل کے غیر مسلم مرتکب کی کیا سزا ہے؟ آیا اس کی کوئی سزا متعین ہے یا اسے حکومتِ وقت کی صوابدید پر چھوڑا جا سکتا ہے؟

اگر اس سوال کو عہدِ نبوی کے واقعات سے ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موت کی سزا صرف ان لوگوں کو دی گئی تھی جو عادتا اس فعل میں ملوث تھے یا اس کے ذریعے سے ریاست کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا کام کرتے تھے اسی لئے احناف کا موقف یہ ہے کہ توہین کے مرتکب کو بہرصورت موت کی سزا دینا شرعا لازم نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس دور کے ایسے واقعات کا مطالعہ کرتے ہوتے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ریاستوں کے وجود کی بنیادیں کیا ہوا کرتی تھیں؟

کیونکہ یہ وہ اہم پہلو ہے جو ریاست میں مقیم لوگوں کی حیثیت کا تعین کرتا ہے اور قانونی احکامات اسی حیثیت کو دیکھتے ہوئے لاگوکیے جاتے ہیں۔ قدیم دور میں جو کفار اسلامی ریاست کے خطوں میں آباد تھے ان کی حیثیت ذمی یا معاہد کی سی تھی چنانچہ اس دور میں جتنے لوگوں کو اس فعلِ شنیع کی وجہ سے قتل کیا گیا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی وجہ سے اپنے عہد اور امن سے نکل گئے تھے اور ان کی اس وقت کی اصل قانونی اور ریاستی حیثیت یعنی اباحتِ دم لوٹ آئی تھی۔

اگرچہ یہ بھی کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے کہ شتمِ رسول سے نقضِ عہد متحقق ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ احناف کے ہاں اس فعل سے نقض متحقق نہیں ہوتا لہذا احناف اس فعل کے عادی مجرم کو موت کی سزا فساد فی الارض کے قانونی پہلو کی وجہ سے دیتے ہیں جس سے ایک اخلاقی پہلو بھی ملحق ہے اور وہ یہ کہ اس فعل سے حضور علیہ السلام کے متعلقین کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جو اسلامی معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا باعث ہے۔

اگر ہمارے دور میں کفار کی ریاستی حیثیت کو دیکھا جائے تو وہ اس حیثیٰت سے یکسر مختلف ہے جو کہ قدیم دور میں ہوا کرتی تھی کیونکہ پہلے ایک مسلم معاشرے میں کفار سرنگوں ہو کر جزیہ کی صورت میں اپنی جان کا فدیہ دیتے ہوئے رہتے تھے اور اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ریاست کا قیام ایک خاص مذہب کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا جبکہ آج کل ریاستیں قومیت کی بنیادوں پر استوار ہیں جس کی وجہ سے غیر مسلموں کی وہ قدیم شرعی حیثیت باقی نہیں رہی بلکہ ایک خاص زمینی دائرے کے تمام لوگ اس خاص خطے کا باشندہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کے برار کے شہری ہیں لہذا ہمارے خطے میں غیر مسلموں کی وہ حیثیت تو باقی نہیں رہی کہ وہ اصلا اس خطے میں مباح الدم تھے اور توہینِ رسالت کی وجہ سے ان کا معاہدہ ٹوٹ گیا اور وہ اپنی سابق حیثیت پر واپس چلے گئے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کو آقا علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی اجازت دے دی جائے کیونکہ اس مسئلے کا اخلاقی پہلو باقی ہے اور ہمیشہ رہے گا جس کو کچھ دن پہلے یونائٹڈ نیشن نے بھی تسلیم کیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے اس کے مرتکب کو بہرصورت موت کی سزا دینے پر اصرار کرنا نری جذباتیت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اب اگر اس مسئلہ کے دوسرے بنیادی پہلو کو دیکھا جائے تو یہ بات اتفاقی ہے کہ سزا کا اجراء صرف تب ہو گا جب قاضی تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے جرم کے پائے جانے کا فیصلہ کر دے کیونکہ اگر اسے عام لوگوں کی صوابدید پر ہی چھوڑ دیا جائے تو اولا تو یہ ذاتی عناد اور دشمنیاں نکالنے کا ایک حربہ بن کر رہ جائے گا جس کا لازمی نتیجہ انارکی اور انتشار ہے۔

اب جبکہ توہین کی سزا ہی فساد فی الارض سے بچاؤ کے لئے دی جاتی ہو تو اس صورت میں عوام کو سزا دینے کا اختیار دے دینا تو خود اسی صورتحال کو دعوت دینے کے مترادف ہے جس کی روک تھام کے لئے سزا کو متعین کیا گیا۔ لہذا فیصلہ صرف وہی معتبر ہو گا جو پورے عدالتی پراسس کے مدِ نظر کیا جائے۔ آسیہ کے معاملے کی اولا تو ابتداء ہی باغ میں کام والی عورتوں سے جھگڑے سے ہوئی اور پھر اس سے اقرار جس حالت میں کروایا گیا وہ بھی خاصا قابلِ بحث معاملہ ہے لیکن حقیقی صورتحال کچھ بھی ہو اس سارے معاملے کی تمام جزئیات کی تحقیق کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔

کس کی گواہی معتبر ہے کس کی نہیں؟ بوقتِ اقرار مقر کی حالت کی پرکھ اقرار کو بغیر شبہ کے معتبر رہنے دیتی ہے یا نہیں؟ یہ تمام باتیں دیکھ کر دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے لیکن ہمارے ہاں کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ لوگ عدالتوں سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کا عقلا امکان موجود ہے کہ یہ فیصلہ خارجی دباؤ میں آ کر کیا گیا ہو لیکن اسی طرح اس بات کا امکان بھی سو فیصد ہے کہ پہلے فیصلے مذہبی مافیا کے دباؤ اور ججوں کو ملنے والی دھمکیوں کے دباؤ میں غلط ہوئے ہوں۔

وہ فیصلے غلط تھے یا درست ان کے خلاف اپیل کا حق مدعی علیھا کو بہرحال تھا جسے اس نے استعمال کیا اور کیس میں شبہات کی وجہ سے رہا ہوئی۔ ہمارے اہلِ مذہب کا بیابیہ اس وقت سراسر جذباتیت پر مبنی ہے جس کی سوائے اپنی اجارہ داری قائم ر کھنے کی خواہش کے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ اگر ان کے بیانیوں کی جڑوں کو دقتِ نظری سے دیکھا جائے تو ان میں بھی بہت سے تضادات نظر آتے ہیں مثلا ایک طرف وہ ریاستی حیثیت کی تبدیلی کی وجہ سے کفار کو وہ حٰیثیت دینے کو عملا راضی نہیں جس کا جدید ریاستی نظام تقاضا کرتا ہے اور دوسری طرف وہ جمہوریت کے نام پر عدالتی فیصلوں پر احتجاج کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ بات تو جملہ معترضہ کے طور پر آ گئی۔

لیکن اس وقت جو مذہبی قائدین کی طرف سے عملی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے اس کے فوری اور دورس رس نتائج بہت بھیانک ہیں۔ جذباتی بیانیہ مرتب کرنے کے لئے سلمان تاثیر کے قاتل سے متعلق عدالتی فیصلے کو بھی آسیہ کی رہائی کے ساتھ ملایا جا رہا ہے تاکہ عوامی جذبات کو مزید برانگیختہ کیا جا سکے حالانکہ وہ خود خوب جانتے ہیں کہ اس فیصلے میں بھی قانونا کسی قسم کا جھول نہیں تھا جسے نجی محفلوں میں تسلیم کیا گیا لیکن عوام میں اس کا اظہار مناسب نہیں سمجھا گیا تاکہ ریاست پر عوامی دباؤ برقرار رکھتے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جا سکیں۔

کیا فیصلہ دینے والے ججز کو مباح الدم قرار دے کر قتل کی دھمکیاں دینا دباؤ کے زمرے میں نہیں آتا؟ اور جب ماورائے عدالت کسی کو گستاخ قرار دے دیا جائے اور پھر اس کے متعلق فیصلہ کرنے والوں کو بھی معاوت کے جرم میں ببانگِ دہل قابلِ گردن زدنی کہا جائے تو یہ معاملہ کہاں رک سکتا ہے؟ اور اگر یہ معاملات مولویوں نے ہی طے کرنے ہیں تو گستاخِ رسول کا خارجی معروض بھی متعین نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ کل بپھرے ہوئے لوگوں نے کچھ تبلیغی جماعت کے ارکان کو گستاخ قرار دے کر گولیوں سے بھون دیا۔

یہ لوگ اپنے عملی اقدامات سے مستقبل میں مذہب کی بقاء کے امکانات کو کم سے کم تر کرتے جا رہے ہیں۔ اور یہ سارا مسئلہ فکری اور وجوی صورتوں میں عدمِ مطابقت کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
خدا ہمیں عقل دے کر ہدایت کی راہ پر چلائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).