عمر متین اور ہم جنس پسندوں کی پوشیدہ کہانیاں


 فون کی گھنٹی بجی، “میرے ایک مریض‌ کو دیکھ لو اور دوا لکھ دو، اس کو ڈپریشن، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور موٹاپے کی پرابلم ہے۔” میری ایک دوست کا فون تھا جو سائکولوجسٹ ہے اور اس کے پاس دوا لکھنے کا لائسنس نہیں‌ ہے۔ وہ صرف کاؤنسلنگ کرسکتی ہے۔ لیکن میں‌ تو اینڈوکرنالوجسٹ ہوں‌، سائکائٹری میں‌ ہاؤس جاب کی تھی لیکن میرے پاس سائکائٹرسٹ کا لائسنس نہیں‌ ہے۔ اگر اینٹی ڈپریسنٹ کھا کر اس لڑکے نے خود کشی کر لی تو؟ میری ذمہ داری بن جائے گی اس لئے تم اس کو یا تو فیملی ڈاکٹر کو دکھاؤ یا پھر میری بہن کو دکھا لو وہ سائکائٹرسٹ ہے میں‌ نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔

اس نے کہا کہ یہ لڑکا آسٹریلیا سے بھاگ کر یہاں‌ امریکہ آیا ہوا ہے وہ بھی وزٹنگ ویزا پر، اس کے پاس نہ نوکری ہے اور نہ پیسے۔ اس کے پاکستانی والدین اس کی کسی لڑکی سے شادی کرانے کی کوشش کررہے تھے تو وہ گھر سے فرار ہوگیا۔ خود کشی نہیں‌ کرے گا کیونکہ میں‌ کاؤنسلنگ کر رہی ہوں۔

اچھا ٹھیک ہے میں‌ نے اس کا علاج کرنے کی حامی بھری۔

فرائیڈے پر سارے مریض جا چکے تھے اور اسٹاف بھی تو میں‌ نے ان لوگوں‌ کو دروازہ کھول کر اندر آنے دیا۔ پھر کچھ اور تفصیل پتا چلی کہ کس طرح‌ اس کی فیملی اس کو جان سے مار دینا چاہتی ہے اور وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ ایسا اس لئے ہو گیا کیونکہ وہ کبھی کسی لڑکی کے ساتھ رہا ہی نہیں‌ ہے۔ اس کو کہنے لگے کہ تم آسٹریلین گرل فرینڈ بنا لو۔ وہ سوچ رہے تھے کہ شاید ایسا کرنے سے وہ ہم جنس پسند ہونا چھوڑ دے گا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اس موضوع کے بارے میں‌ کتنی کم معلومات رکھتے ہیں۔ اس کو میں‌ نے ویلبیوٹرن لکھ کر دی جو سستی بھی ہے اور اس سے ڈپریشن بھی کم ہوجائے گا اور وزن میں‌ بھی فائدے کا امکان ہے۔ وزن کم ہوگا تو بلڈ پریشر اور کولیسٹرول بھی خود ہی بہتر ہوجائیں گے۔ اس کے بعد اس کو کبھی نہیں‌ دیکھا، معلوم نہیں‌ آگے کیا ہوا۔

جب ہم لوگ سکھر میں‌ اسکول میں‌ پڑھتے تھے تو اس زمانے میں‌ نونہال، تعلیم و تربیت، میگ اور جنگ وغیرہ نکلتے تھے۔ میرے سوتیلے والد خود امیر جماعت اسلامی ہوتے تھے اور گھر میں‌ پوری جماعت کی لائبریری تھی۔ تو وہ کتابیں‌ بھی میں‌ نے پڑھ لی تھیں۔ کافی ساری کتابیں‌ ایسے شروع ہوتی تھیں‌ کہ مغرب اتنا برا اور ہم کتنے اچھے۔ ایک مرتبہ میں‌ رسالہ تکبیر پڑھ رہی تھی جس میں‌ ایک آرٹیکل تھا جس میں‌ مغربی ممالک کی اخلاقی گراوٹ کی کہانی لکھی تھی۔ اس کے نیچے ایک تصویر تھی جس میں‌ دو آدمی ہنس رہے تھے اور نیچے لکھا تھا “گے پیپل وانٹ ٹو میری”۔ گے کا مطلب سمجھ نہیں‌ آیا تو میں‌ نے انگریزی ڈکشنری نکالی اور اس میں‌ لفظ گے کا مطلب ڈھونڈا۔ اس میں‌ لکھا تھا کہ گے کا مطلب ہے ہیپی یا خوش۔ اس بات پر میں‌ سوچنے لگی کہ اگر خوش لوگ شادی کرنا چاہ رہے ہیں‌ تو یہ کیا خبر بنی؟

ساری زندگی بچے بن کر نہیں‌ رہا جا سکتا ہے۔ بڑا ہونا ہوتا ہے اور بڑے سوالوں‌ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

جب عمر متین نے فلوریڈا میں‌ پچاس آدمی مار دئیے تو میں سوچ رہی تھی کہ اس کی کیا پرابلم تھی؟ کیا “ری ایکشن فارمیشن” تھا جس میں‌ اسی چیز کے خلاف زیادہ نعرے لگائے جاتے ہیں‌ جس میں‌ بہت دلچسپی ہو۔ جیسے ایک 13 سال کا لڑکا آتی جاتی لڑکیوں‌ پر پتھر پھینکتا ہے اور کہتا ہے وہ کتنی بری ہیں کیونکہ اس کو وہ بہت پرکشش لگتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اس کی اپنی بیوی سے نہ بنی ہو۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود کبھی بچہ بازی کا شکار ہوا ہو اور یہ نفرت اس کے ذہن سے آج تک نہ نکلی ہو۔

پھر اس بات سے کس کو انکار ہوگا کہ دنیا میں تقریباََ ہر جگہ ہی ہم جنس پسند افراد کو نیچی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور مذہبی افراد ان کو بہت برا بھلا کہتے ہیں کہ یہ بدکار ہیں، جہنمی ہیں‌ اور دیگر اس طرح‌ کی باتیں۔ یقیناََ ان کے لئے بچپن سے بڑے ہونے تک یہ سننا نہایت تکلیف دہ ہوتا ہو گا اور وہ اپنے آپ کو ایک مستقل تضاد میں‌ محسوس کرتے ہوں‌ گے۔ وہ یہ ضرور سوچیں‌ گے کہ اگر ان کا وجود گناہ ہے تو خدا نے ان کو ایسا کیوں‌ بنایا؟

علی گڑھ میں ایک ہم جنس پسند پروفیسر نے اس واقعے کے بعد خود کشی کر لی جب ان کی ایک رکشہ ڈرائیور کے ساتھ وڈیو بنا کر مقامی ٹی وی پر نشر کردی گئی۔ اس کہانی پر ایک مووی بھی بن رہی تھی۔ شاید بن چکی ہو گی۔

ایک مرتبہ کیا ہوا کہ میری ایک 80 سالہ مریضہ آئیں۔ باتوں‌ باتوں‌میں‌ انہوں‌ نے بتایا کہ وہ کہانیوں‌کی کتاب لکھ رہی ہیں۔ میں‌ نے ان سے کہا میں‌ بھی کتاب لکھنے کے بارے میں‌ سوچ رہی ہوں۔ انہوں‌ نے کہا کہ آپ کی کتاب کس بارے میں ‌ہے تو میں‌ نے ان سے کہا کہ یہ ٹرانس جینڈر جو مریض‌ ہیں‌ وہ مجھے بہت حیران کن لگتے ہیں‌ اس لئے ان کی کہانیاں جمع کرنے کا ارادہ ہے تاکہ لوگوں‌ کو ان کے مسائل سے آگاہی ہو۔ یہ سن کر انہوں‌ نے یکدم کہا “میرے شوہر ہم جنس پسند تھے!” اور “یہ بات آج تک میں‌ نے کسی کو نہیں‌ بتائی!” یہ سن کر مجھے سکتہ ہوگیا کہ انہوں‌ نے اتنی ذاتی بات کیسے ایک دم کہہ دی کیونکہ میں‌ ان کو تھائرائڈ کی بیماری کے لئے دیکھتی ہوں جس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔

پھر انہوں‌ نے مجھے اپنی زندگی کی مختصر کہانی سنائی کہ ایک بار وہ لوگ گھر پر تھے۔ ان کا اپارٹمنٹ بیسمنٹ میں‌ تھا جس کی کھڑکیاں‌ اوپر چھت کی طرف تھیں۔ ان کے شوہر بستر پر سو رہے تھے۔ انہوں‌ نے دوسرے کمرے سے دیکھا کہ ایک آدمی کھڑکی سے اندر جھانک رہا ہے۔ وہ سمجھیں‌ کہ کوئی چور ہے۔ انہوں‌ نے پولیس کو کال کی اور اپنے شوہر کے پاس جا کر آہستہ سے کہا کہ کوئی ری ایکشن نہیں‌ کرنا لیکن کوئی آدمی کھڑکی سے ہمارے گھر میں‌ جھانک رہا ہے۔ یہ سن کر وہ چھلانگ لگا کر اٹھ بیٹھے اور چیخ پکار کرنے لگے۔ اس شور شرابے میں‌ وہ آدمی بھاگ گیا۔ جب تک پولیس آئی تو وہ جا چکا تھا اور جاتے جاتے ان کے شوہر کے انڈر وئر جو باہر لٹکے تھے وہ بھی ساتھ لے گیا۔ کہنے لگیں‌ کہ میں‌ سوچ میں‌ پڑ گئی کہ کون پاگل آدمی تھا اور ایسے کپڑے اٹھا کر کیوں‌ بھاگ گیا؟

انہوں‌ نے بتایا کہ کس طرح‌ ان کے شوہر بات بات میں‌ ان سے لڑتے تھے اور ایک بار ان کو جان سے مارنے کی کوشش بھی کی۔ وہ بائیں‌ ہاتھ سے کام کرتے تھے اور اپنی بیٹی کے بائیں‌ ہاتھ سے پین نکال کر دائیں‌ ہاتھ میں‌ تھما دیتے کہ بیٹا سب لوگوں‌ کی طرح‌ بنے رہو تو زندگی آسانی سے گذرتی ہے۔

ایک اور قصہ انہوں‌ نے بتایا کہ وہ لوگ ہر سال آلو اگاتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ دونوں‌ میاں‌ بیوی کھڈا کھود کر آلو لگا رہے تھے تو ایک آدمی ٹرک لے کر آگیا اور ان کے شوہر کو کہتا ہے کہ چلو مچھلیاں‌ پکڑنے چلیں۔ لیکن ان کے شوہر نے منع کردیا کہ نہیں‌ مجھے یہاں‌ اپنی بیوی کے ساتھ آلو لگانے ہیں۔ اس نے کافی اصرار کیا لیکن بار بار منع کردینے پر غصے میں‌ آگیا اور چیخنے چلانے لگا، اس کی آنکھوں‌ سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس نے ان صاحب کی بیوی کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور واپس ٹرک میں‌ بیٹھ کر چلا گیا۔ وہ کہنے لگیں‌ میں‌ نے سوچا کہ اس سردی میں‌ اس کو کیا پڑی ہے کہ مچھلیاں‌ پکڑنے جائے اور اتنی سی بات پر اس کو اتنا برا کیوں‌ لگ گیا؟

یہ کہانی سوچ کر میں‌ اس سوچ میں‌ پڑ گئی کہ کون سا رشتہ اصلی تھا اور کون سا جعلی؟ جو دنیا کو دکھانے کے لئے نارمل نظر آنے کے لئے ایک عورت سے رشتہ بنایا ہوا تھا جس میں‌ وہ خوش نہیں تھے وہ یا وہ دوسرا رشتہ جس کو دنیا نہ سمجھتی تھی اور نہ ہی سمجھنا چاہتی تھی۔

ان خاتون سے میں‌ نے کہا کہ آپ کی اصلی کہانی تو ان کہانیوں‌ سے زیادہ طاقت ور ہے جو آپ نے لکھی ہیں‌، آپ اپنی کہانی کیوں‌ دنیا کو نہیں‌ بتاتیں؟ انہوں‌ نے کہا کہ نہیں‌ میرے شوہر مر چکے ہیں‌ اور وہ نہیں‌ چاہتے تھے کہ ان کے بچوں‌ کو ان کے بارے میں‌ یہ بات کبھی پتا چلے۔ کیا میں‌ آپ کی کہانی لکھ سکتی ہوں؟ میں‌ نے ان سے اجازت مانگی۔ ہاں آپ میری کہانی لکھ سکتی ہیں۔ انہوں‌ نے جواب دیا۔

اگر کبھی یہ موضوع چھڑ جائے تو لوگ تلملا کر کہتے ہیں‌ کہ اگر آپ کا بچہ ایسا کہے تو آپ کیا کریں‌ گی۔ تو اس کے لئے میرا صرف ایک جواب ہے اور وہ یہ کہ میرے بچے میرے بچے ہیں‌ آپ ہمارے کیا لگتے ہیں؟ ہم آپ کو خوش کرنے کے لئے کیوں ان کی زندگی جہنم بنائیں‌ گے؟

یہ پہلے زمانے کی خواتین تھیں‌ جو ایسے شوہروں‌ کے ساتھ رہ گئیں‌ جن کو ان میں‌ دلچسپی نہیں‌ تھی۔ آج کل لڑکیاں ‌بہت تیز ہوگئی ہیں۔ ایسے ایک لڑکے کی ایک مہینے میں طلاق ہوگئی کیونکہ اس کی بیوی کو سمجھ آگیا تھا کہ اس کے شوہر کو اس میں دلچسپی نہیں‌ ہے۔

دبے ہوئے معاشرے میں‌ خواتین کی دلچسپی ویسے ہی اہم نہیں‌ سمجھی جاتی اس لئے وہ آسانی سے چھپ سکتی ہوں‌ گی۔

ہم جنس پسند دنیا میں‌ تقریباَ 5 فیصد ہیں۔ ایک دفعہ ایک بائیں‌ ہاتھ سے کام کرنے والی دوست نے مجھ سے کہا کہ دنیا میں‌ ہر چیز سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والے افراد کے لئے بنی ہوئی ہے۔ کریڈٹ کارڈ مشین سے لیکر بینک کی کھڑکیاں اور دروازے کے ہینڈل سبھی کچھ۔ ایسا ہی ہے۔ میں‌ نے اس بات پر کبھی غور نہیں‌ کیا تھا۔ وہ آپ کو صرف اس وقت پتا چلتا ہے جب آپ بائیں‌ ہاتھ سے کام کرنے والے فرد ہوں۔

زیادہ تر لوگوں‌ نے نہ سمجھنا ہے اور نہ ہی وہ سمجھیں‌ گے۔ لیکن تعلیم یافتہ افراد پر فرض‌ بنتا ہے کہ وہ شعور بڑھائیں‌ اور کم از کم اپنا رویہ تبدیل کریں۔

ہم جنس پسند ہمارے چاروں‌ طرف سامنے ہی چھپے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے ماں‌ باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، رشتہ دار، دوست اور ٹیچر سب ہیں۔ ان کو خود پتہ ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں‌ اور کیا ہیں۔ اگر آپ ہم جنس پسند ہیں‌ اور یہ پیپر پڑھ رہے ہیں‌ تو آپ کو خود کشی نہیں‌ کرنی چاہئے، سزا ان لوگوں‌ کے لئے مناسب ہونی چاہئے جو قتل کرتے ہیں اور دوسرے انسانوں‌ کا حق مارتے ہیں۔ آپ کو اپنے حق کے لئے کھڑا ضرور ہونا چاہئے۔ وہ شاید آپ کو اس وقت فائدہ نہ دے لیکن ان لوگوں‌ کے لئے سوچیں‌ جو آج سے سو سال بعد اس دنیا میں‌ آنے والے ہیں۔ ہم جنس پسندی دنیا میں‌ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

زندگی ہر کسی کو فٹ ہوجانے والا ایک ہی فری سائز موزہ نہیں‌ ہوتی۔ ہم اپنے اندر سے نکل کر دوسرے انسان کے اندر جاکر اس کے خیالات اور احساسات نہیں‌ جان سکتے ہیں لیکن ان کو سمجھنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments