مولانا سمیع الحق بھٹو کی طرح مردم ناشناس نکلے


مولانا سمیع الحق کی تدفین کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔  انہیں جامعہ حقانیہ کے اندر اپنے والد مولانا عبدالحق کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔  لوگوں کے جم غفیر اور اہم شخصیات کی موجودگی کے باعث انتظامیہ نے تدفین کا عمل عجلت میں مکمل کیا۔ لوگوں کی زیادہ تعداد کے باعث نماز جنازہ کے دوران بھی بدنظمی دیکھنے میں آئی، تاہم مدرسے کے طلباء نے اس پہ قابو پایا۔ کسے خبر تھی کہ خطے میں غیر ریاستی مسلحانہ قوت و دہشت کی علامت سمجھے جانے والے مولانا سمیع الحق اپنے ہی گھر کے اندر عالم تنہائی میں اتنی بے بسی سے قتل کر دیے جائیں گے۔  ان کے قتل کی ابتدائی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں، جس میں پولیس نے دہشت گردی کے عنصر کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کو ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔  تحقیقاتی ٹیم نے ان کے قتل میں دہشت گردی کے عنصر کو رد کر دیا ہے۔

واقعہ کا مقدمہ تھانہ ایئرپورٹ میں درج کیا گیا ہے، جس میں دہشت گردی کی دفعات کے بجائے قتل اور گھر میں زبردستی گھسنے کی دفعات شامل کی گی ہیں۔  قتل کا مقدمہ ان کے بیٹے حامد الحق کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ مقدمے کے متن کے مطابق مولانا سمیع الحق پر حملہ شام 6 بجکر 30 منٹ پر ہوا۔ مولانا سمیع الحق کے پیٹ، دل، ماتھے، کان پر چھریوں کے 12 وارکیے  گئے۔  ان کے بیٹے مولانا حامد الحق نے ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کرنے دیا اور اسے غیر شرعی قرار دیا۔ پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ان کے محافظ اور سیکرٹری کو حراست میں لے لیا ہے۔  جمعے کی شام 6 بجکر 35 منٹ پر مولانا سمیع الحق کے سیکرٹری احمد شاہ نے اطلاع دی کہ مولانا صاحب اپنے کمرے میں زخمی حالت میں موجود ہیں۔  ان کے گھر سے انہیں سفاری ولا اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق دو افراد جو ماضی میں بھی مولانا سمیع الحق سے ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں، گذشتہ روز انہوں نے مولانا سے ملاقات کی، مولانا نے خود اپنے نوکروں کو باہر بھیجا، تاکہ وہ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے کچھ لاسکیں۔  مولانا سمیع الحق جیسی شخصیت کہ جن کے پاس ہمہ وقت معتبر شخصیات اور مہمانوں کی آمد کا تانتا بندھا رہتا ہے، کیا ان کے پاس مہمانوں کو پیش کرنے کے لئے گھر میں کچھ نہیں تھا۔ ؟ اس پہ مزید حیران کن یہ کہ تمام عملہ سیکرٹری، ڈرائیور، گن مین مولانا کو مہمانوں کے پاس اکیلا چھوڑ کر ایک ساتھ باہر چلے گئے۔  عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ گھر کے تمام نوکروں اور گھر کے تمام افراد کو گھر سے باہر صرف گھر کا مالک ہی بھیج سکتا ہے۔  ابتدائی تحقیقات میں ملازمین نے بیان دیا کہ دونوں افراد پہلے بھی مولانا سے ملاقات کے لئے آتے تھے، تاہم ان سے گفتگو کے دوران مولانا سمیع الحق نوکروں کو باہر بھیج دیتے تھے۔  جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ افراد سے مولانا ان امور پہ بات گفتگو کرتے تھے کہ جنہیں صیغہ راز میں رکھنا مقصود ہوتا تھا، با الفاظ دیگر مولانا کے قاتلوں کو نوکروں سے زیادہ مولانا کا اعتماد حاصل تھا، یعنی مولانا بھی بھٹو کی طرح ہی مردم ناشناس نکلے۔

پولیس کی جانب سے ایف آئی آر میں گھر میں زبردستی گھسنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں، جبکہ مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق نے بھی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ والد صاحب کمرے میں آرام کر رہے تھے۔  گھر میں اس وقت نوکر موجود نہیں تھے، جبکہ حملہ آور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے۔  ملازمین کے مطابق ان دو افراد کے ساتھ مولانا کو چھوڑ کر جب وہ واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مولانا سمیع الحق اپنے بیڈ پر پڑے ہیں، ان کے جسم پر تیز دھار آلے کے گہرے زخم ہیں، جسم کا بالائی حصہ خون میں بھیگا ہوا ہے، خون ان کے میٹرس سے نچڑ رہا تھا، انہوں نے فوری طور پر انہیں قریبی سفاری ہسپتال پہنچایا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔ بتایا گیا کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ چکے تھے۔  مولانا سمیع الحق کی کمرے میں میز پر موجود عینک اور دیگر استعمال ہونیوالی اشیا کو بھی تحویل میں لے لیا گیا، تاکہ ان کا فرانزک ٹیسٹ کرایا جا سکے، جو انویسٹی گیشن میں معاون ثابت ہوگا۔ پولیس نے کمرے سے حاصل کیے  گئے فنگر پرنٹس نادرا کو جبکہ کمرے سے حاصل کیے  گئے خون کے نمونے کراس میچ کے لئے لیبارٹری بھجوا دیے ہیں، اس کے علاوہ مولانا سمیع الحق کے زیر استعمال موبائل فون کا ڈیٹا اور گھر کے قریب نصب کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔  جیو فینسنگ کے لئے متعلقہ اداروں سے بھی معاونت طلب کرلی گئی ہے۔

مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے اپنے والد کے قتل سے متعلق جو گفتگو میڈیا سے کی، وہ انتہائی اہم اور غور طلب ہے، فرماتے ہیں ان کے والد کو افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے خطرہ تھا کیونکہ والد صاحب افغانستان کو امریکہ کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔  انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہمیں ملکی خفیہ اداروں نے بھی کئی بار بتایا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی خفیہ اداروں کے ہدف پر ہیں۔  ایک سوال کے جواب میں مولانا حامد الحق کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دھمکیوں کے حوالے سے آگاہ کر دیا تھا، جبکہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی، تاہم مولانا صاحب سکیورٹی کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لئے سفر میں ان کے ساتھ دوستوں کے علاوہ کوئی سکیورٹی اہلکار نہیں ہوتا تھا۔ مولانا حامد الحق نے مزید کہا کہ ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں، جو جہاد مخالف ہیں، جو مدرسوں اور خانقاہوں کی مخالفت کرتے ہیں، وہی طاقتیں اس قتل میں ملوث ہیں۔

مولانا سمیع الحق گذشتہ چند برسوں سے راولپنڈی میں مقیم تھے، تاہم ان کی اکوڑہ خٹک میں آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹے سابق ایم این اے مولانا حامدالحق حقانی، راشدالحق سمیع، محمد اسامہ سمیع، عظیم سمیع، پانچ بیٹیاں اور ایک بیوہ شامل ہیں۔  ان کی ایک اہلیہ پہلے ہی انتقال کرچکی ہیں۔  مولانا سمیع الحق دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور گذشتہ مارچ میں ان کا عسکری ادارہ امراض قلب میں دل کا بائی پاس بھی ہوا تھا، جہاں پہ آرمی چیف سمیت دیگر اہم شخصیات نے ان سے ملاقات اور ان کی عیادت کی تھی۔ مولانا سمیع الحق پہ اس سے پیشتر بھی متعدد بار جان لیوا حملے ہوئے، تاہم ان حملوں میں محفوظ رہے۔  ان کا مدرسہ حقانیہ دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتب فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانا جاتا ہے۔  اسے اتفاق کہیں یا خصوصیت کہ افغان طالبان کی لیڈر شپ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی مدرسہ حقانیہ سے وابستہ رہی اور کالعدم ٹی ٹی پی کی اب تک کی تمام لیڈر شپ بھی اسی مدرسے سے ہی منسلک تھی۔ سکیورٹی فورسز، سرکاری اداروں اور ریاستی ستونوں سمیت پاکستان کے شہریوں کو جن حملوں میں نشانہ بنایا گیا، ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ اسی مدرسہ یا اس کی ذیلی شاخوں سے وابستہ رہے۔

نائن الیون کے بعد پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے سانحات کی واضح مذمت تو یہاں سے کبھی نہیں کی گئی، البتہ ان حملوں کی توجہیات اور تاویلات ضرور پیش کی گئی۔ مولانا سمیع الحق کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س) حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی تھی اور کے پی کے حکومت نے ان کے مدرسے میں جدید نصاب کے لئے بھاری فنڈنگ بھی کی تھی، جس پر مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید بھی کی تھی۔ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے قبل بھی جے یو آئی (س) اور پی ٹی آئی کو نظریاتی حلیف قرار دیا جا رہا تھا، کیونکہ دونوں طالبان کے نہ صرف دفاتر کھولنے اور ان سے مذاکرات کی حامی تھیں بلکہ ہتھیار ڈالنے والے تربیت یافتہ دہشتگردوں کو سرکاری فورسز میں شامل کرنے کی بھی زبردست حامی تھیں، ایک طرف نظریاتی ہم آہنگی کا یہ عالم کہ جس طرح مولانا سمیع الحق کو بابائے طالبان پکارا جاتا تھا، اسی طرح عمران خان کو طالبان خان پکارا جانے لگا۔ دوسری جانب دوری کا یہ عالم کہ پی ٹی آئی جلسوں اور اس کی عوامی سیاسی تقریبات کا ماحول جے یو آئی (س) کے لئے حرام تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2