طالبان کا باپ مر گیا…  ایک اور فتح کا اعلان؟


مولانا سمیع الحق سے ڈھائی یا تین ملاقاتیں ہوئیں۔ دو بار انٹرویو کرنے والے کے لیے ان کی پشتو کا انگریزی ترجمہ کیا۔ انہیں پتہ نہیں کیا لگا یا بندوں کی پرکھ ان کی کمال تھی۔ انہوں نے کہا چہ خبرہ مہ چرتا غلطا کڑا نو پخپلہ ٹک کا۔ (میں اگر کچھ غلط بول گیا تو خود ہی ٹھیک کر لینا۔) یعنی کوئی ایسی بات جس سے ایشو بنے کاٹ دینا۔ ایسی کوئی بات انہوں نے کی نہیں جسے بدلنا پڑتا۔

ستمبر گیارہ کے فوری بعد پہلی بار ان سے ملنا ہوا تھا۔ تب جب انہوں نے جہاد کا مطلب کوشش بتایا تو بالکل اچھا نہیں لگا۔ خود کو بار بار سمجھا کر بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ بس یہی لگتا کہ مولانا نے اچھا نہیں کیا۔ ان کے مدرسے کے لوگ جان دے رہے یہ جہاد کو کوشش بتا رہے۔

ابھی اس تاثر سے لڑائی جاری تھی کہ دوسری ملاقات میں دوسرا الٹا کام ہو گیا۔ یہ کام پختون ولی مقامی روایت کے خلاف تھا، ہضم ہی نہ ہوا۔ مولانا نے فارن میڈیا ٹیم کو رکنے کا کہا وہ مان گئے، بیٹھنے لگے۔ تو مولانا نے مجھے کہہ دیا کہ انہیں کہیں باہر لے جاؤ، وہیں کھلا دینا۔

اک شدید احساس خواری و ندامت ہوا۔ اس سے شاید نہ نکل پاتا لیکن ہوا یہ کہ یہ بات ہمارے دوست ہمارے استاد اور اسی میڈیا ٹیم کو لانے والے بھائی نے اپنے کزن ایک دوسرے مولانا کو بتا دی۔ وہ سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے آئے۔ ہمیں گلے لگایا تسلی دی کہا کوئی بات ہو گی۔ یہ مولانا جو ہمیں تسلی دینے آئے تھے، مولانا سمیع الحق کے اتنے کوئی مداح نہیں تھے۔ ان کے ایک قسم کے مخالف ہی تھے بلکہ ہیں۔

دارالعلوم حقانیہ سے اک براہ راست تعلق بھی ہے۔ ہمارے قاری صاحب مولانا عبدالحق سے پڑھے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کے والد سے۔ جس محنت محبت سے انہوں نے ہم بگڑی روحوں کو پڑھایا۔ انہیں دیکھ کر یہی سوچتے کہ یہ خود کن سے پڑھے ہیں، کہاں سے پڑھے ہیں؟

مولانا سمیع الحق کے کے ترجمان نے جب پہلی بار مولانا کو حقانیہ یونیورسٹی کا وی سی بتایا تو بہت ہنسی آئی تھی۔ پھر جہاد یونیورسٹی کا نام ان پر فٹ ہو گیا۔

 دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہونے والوں نے جہاں جہاں جا کر مدارس بنائے۔ اکثریت نے حقانیہ سے اپنی نسبت برقرار رکھی۔ ان کے ناموں میں حقانی کا اضافہ بھی دکھائی دینے لگتا۔ حقانی نیٹ ورک کو ذرا یاد کر لیں۔ جلال الدین حقانی بھی اسی دارالعلوم سے پڑھے۔

انہوں نے خود بھی مدارس قائم کیے۔ سب کا نصابی تعلق دارالعلوم سے ہی جڑا رہا۔ مولانا سمیع الحق اس دارالعلوم کے علاوہ یہاں سے جڑے سینکڑوں مدارس کے بھی سرپرست تھے۔

ریاست کی افغان پالیسی کے وہ اتحادی رہے۔ نفع نقصان شہرت بدنامی کی پرواہ کیے بغیر ریاستی پالیسی کے ساتھ کھڑے رہے۔ جب ریاست جہاد کا نام لینا چھوڑ گئی تو بھی ریاستی پالیسی کے ساتھ رہے۔ اپنی بیس میں ان کی مقبولیت گھٹتی بڑھتی رہی ہو گی۔ لیکن وہ ہر وقت موثر رہے۔

مولانا سمیع الحق نے جب بھی کوئی بیان دیا۔ اپنی نظریاتی پوزیشن برقرار رکھی۔ ریاستی موقف کے ساتھ تعلق جوڑے رکھا۔

مولانا کا قتل پراسرار حالات میں ہوا۔ اس سے کہانیاں جوڑی جا رہی ہیں۔ کہانیاں جو بھی ہوں، تفتیش کار اسی رخ پر جا رہے ہیں کہ اگر یہ کوئی جاننے والا بھی تھا تو کمپرومائز ہو گیا۔ یہ ویسا سا ہی واقعہ معلوم ہو رہا ہے جیسا قندھار میں جنرل رازق کے ساتھ ہوا کہ اپنے ہی بھرتی کردہ گارڈ کے ہاتھوں مارا گیا۔

افغان سوشل میڈیا پر مولانا سمیع الحق کے یوں مارے جانے پر اک جشن کی سی کیفیت رہی۔ یہ سب دیکھ کر ہی ایک افغان صحافی کی ٹویٹ دیکھی کہ ہاں طالبان کا باپ مر گیا اب حکومت (افغان) اپنی فتح کا اعلان کر دے۔

ویسے ہی جیسے پاکستانی حکومت نے تحریک لبیک کا احتجاج ختم کر کے اپنی فتح کا اعلان کیا ہے۔

رولا سوچ کا ہے بھائی ، سوچ موجود ہے۔ اس کی قیادت کو چہرے نام بدل بدل کر دستیاب ہوتے رہیں گے۔ نہ تو ان چہروں کی کردار کشی سے مسلہ حل ہو گا۔ نہ ان کے مرنے سے تحریک رکے گی۔ نہ کسی کے قتل ہونے سے فتح حاصل ہونی کسی کو۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر افغان حکومت کر لے اپنی فتح کا اعلان، طالبان کا باپ تو مر گیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi