عرب امارات اور ڈرائیونگ لائسنس


سونے کے لئے لیٹتی ہوں تو ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں سر کے اوپر سے بھاگنے لگتی ہیں۔ ڈراونے ٹرالر، موٹے موٹے ڈرم مکسر، لوڈرزاور خوفناک ڈراؤنی آنکھوں والی اونچی اونچی کرینیں، گاڑی کے بیک ویو مرر سے غرانے لگتے ہیں اور جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مجھے سستانے کو ملتا ہے میں اس میں ساری ٹریفک کے بیچ میں پھنسی اپنی چھوٹی سی گاڑی کسی کھائی میں، کسی لینڈ سلائیڈنگ کی نکڑ پر یا کسی گہری کھائی کی پگڈنڈی پر چلانے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔

یہ میرے کوئی ڈراؤنے خواب نہیں بلکہ ڈرائیونگ ٹرینگ کلاس کے بعد آنے والے وہ ہچکولے ہیں جو اگلے کئی گھنٹوں تک جاگتے میں یا سستاتے مجھے جھٹکے دیتے رہتے ہیں خصوصاً تب جب میں کم سے کم دو تین گھنٹے کی نیند کے بعد خود کو تازہ دم نہ کر سکوں۔ اس کی وجہ وہ ڈرائیونگ کی ٹرینگ کلاس ہے جو مجھے مسلسل دو گھنٹے کے لئے شہر کی مصروف ترین موٹر ویز پر بڑی بڑی لینڈ کروزرز، رینج روور، پیٹرول اور شہر کی بدترین ٹریفک والے انڈسٹریل ایریا میں دنیا کے بھاری بھاری دیوہیکل ٹرالرز کے بیچ چلانی پڑتی ہے۔ اور یہ ڈرائیونگ ٹرینگ کلاس جو مجھے ایک کار لائسنس لینے کے لئے درکار ہے، کوئی خالہ جی کا باڑہ نہیں، اس کی ایک خطرناک کہانی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے قواعد کے تحت میں بغیر لائسنس کار کو ہاتھ تو لگا سکتی ہوں اس میں پیسنجر سیٹ پر بیٹھ بھی سکتی ہوں مگر چلا لینے کی صورت میں سیدھا سیدھا مجھے دیس نکال دیا جا سکتا ہے۔ اور لائسنس حاصل کرنا یہاں ایک لمبا پراسس ہے جو اکثر لٹک کر پی ایچ ڈی جتنا لمبا ہو جاتا ہے۔ مزید آگے چلنے سے بہتر ہے کہ آپ کو اس عمل کے بارے میں تھوڑی معلومات فراہم کی جائے۔

۔ سب سے پہلے آپ ایک بڑے رقبے پر پھیلے احاطے کے ایک کونے میں واقع ڈرائیونگ سکول میں جا کر سکول کی فیس جو ہزار درہم سے اوپر ہے ادا کر کے سکول میں داخلہ لیتے ہیں اور اپنی کلاسز کا شیڈول حاصل کرتے ہیں۔ ان کلاسز کے لئے آپ کی باری کم سے کم بھی پندرہ بیس دن کے بعد آتی ہے۔ تقریبا بارہ کے لگ بھگ کلاسز آپ مختلف دنوں میں دو دو کرکے پوری کرتے ہیں جن میں گاڑی، روڈ سیفٹی، ٹریفک کے قوانین، سائن بورڈز سے متعلقہ لیکچرز، ڈیمو اور سیمولیشن پریکٹس شامل ہے جس میں آپ کمپیوٹر پر ڈرائیونگ کی پریکٹس کرتے ہیں۔

ان تمام کلاسز کے مکمل ہونے پر ایک کمرہ امتحان میں آپ کا ایک کمپیوٹر رائزڈ تھیوری ٹسٹ ہوتا ہے جسمیں 46 معروضی سوالات اور ان کے اتنے ہی نمبر ہوتے ہیں اور پاس ہونے کے لیے آپ کو کم سے کم 42 نمبر چاہیں۔ اسی وجہ سے یہاں سے اکثریت فیل ہو جاتی ہے خصوصاً وہ ایشیائی جو اپنی سڑکوں پر گاڑیاں بھگانے کے تو عادی ہوتے ہیں مگر روڈ سیفٹی اور ٹریفک رولز اور سائن بورڈز کی سائنس سے نا بلد ہوتے ہیں۔ لیکچرذ پر وہ اس لئے دھیان نہیں دیتے کہ خود ان کی دانست میں وہ اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہوتے ہیں جو امتحان سے اناڑی کا اعزاز لے کر نکلتے ہیں۔

اس ٹسٹ کے پاس ہونے کی صورت میں آپ کو سکول میں پریکٹس کے لئے مزید کلاسز جاری کی جاتی ہیں۔ جن میں ایک مرد یا خاتون ڈرائیور آپ کی سہولت کے مطابق آپ کو مہیا کیا جاتا ہے اور آپ سکول میں بنے پریکٹس کے لئے خاص بنے راستوں، پلوں اور شاہراؤں پر گاڑی کو چلانا سیکھنا شروع کرتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے مشتاق ڈرائیور ہیں تو یہاں سے ایک ایویلیوشن ٹسٹ آپ کو پاس ہونے کی صورت سیدھا آخری منزل یعنی روڈ ٹسٹ پر لے جاتا ہے۔

بصورت دیگر آپ ان سڑکوں سے اپنی پریکٹس کا آغاز کرتے ہیں۔ یہاں بھی کم سے کم بارہ کلاسز آپ مختلف انسٹرکٹرز کے ساتھ لیتے ہیں اور اس پریکٹس کے اختتام پر ایک دوسرا ٹسٹ ”ریفریش پارکنگ“ کا اسی سکول میں دیتے ہیں۔ اس ٹسٹ کے پاس ہو جانے کی صورت آپ کو باہر عام شاہراؤں پر ڈرائیونگ کی پریکٹس کے لئے ٹریننگ کارڈ جاری کر دیا جاتا ہے جس کے بعد آپ ایک پرائیویٹ انسٹرکٹر کے ساتھ باہر کی موٹر ویز اور شاہراؤں پر ڈرائیونگ کی پریکٹس کرنے لگتے ہیں اس صورت کہ آپ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے انسٹرکٹر کی خاص گاڑی میں اس کی طرف بھی ایک بریک اور ایکسلیریٹر موجود ہوتا ہے اور وہ کسی ایمرجنسی میں گاڑی کو سنبھال لینے پر قادر ہوتا ہے۔ یہاں پر اب آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت دیے جانے والے روڈ ٹسٹ کی تیاری کرتے ہیں اور پاس کرنے کے لئے آپ کے پاس پہلے مرحلے میں تین چانسز ہیں۔

۔ ان تمام مراحل کی الگ الگ فیس ہے جو عموماً ہزاروں میں اور بار بار فیل ہونے کی صورت کئی کئی ہزاروں میں چلے جاتی ہیں۔ یعنی ایک ایوریج ڈرائیور اپنی کار جتنی قیمت کم سے کم ان کلاسز میں خرچ کر آتا ہے بشرطیکہ آرام سے پہلی فرصت میں پاس ہوتا رہے۔

اس لائسنس کو حاصل کرنے کے لئے سکول کلاسز، تھیوری ٹسٹ، اور پارکنگ ٹسٹ میں پاس کر چکی مگر آخری چھوٹا سا دو منٹ کا ڈرائیونگ روڈ ٹسٹ مجھے بار بار فیل کر کے زیرو پر پہنچا دیتا ہے۔ اس ٹسٹ کو پاس کرنا پی ایچ ڈی سے زیادہ مشکل ہے اور فیل ہونا اتنا تکلیف دہ ہے جتنا ایک ڈاکٹر بننے کے شوقین کے لئے ایف ایس سی میں فیل ہو جانا۔ تو کوئی برسوں پہلے جب میرے میاں صاحب اس کلاس کے لئے گئے تو ہر بار تھیوری کے ٹسٹ کے بعد جب لوٹے تو منہ لٹکائے فیل ہو کر لوٹے۔

بلآخر تنگ آ کر ہم نے ایک دن انہیں مٹھائی کھلا کر منہ میٹھا کر کے بھیجا کہ سنا تھا میٹھا کھانا اچھا شگن ہوتا ہے۔ اور بلاآخر ہمارے ہاتھ کا میٹھا کھلایا کام آیا اور اللہ اللہ کر کے تھیوری ٹسٹ پاس ہو گیا۔ اس کے بعد میاں صاحب کمان میں سے چھوٹے تیر کی طرح نکلتے چلے گئے اور ایک ہی جست میں روڈ ٹسٹ پاس کر کے لائسنس لینے میں کامیاب رہے۔ اگلے کئی سال تھیوری کی ان سپلیوں کا ہم نے ہر آنے جانے والے کے سامنے خوب مذاق اڑایا، ہنسے اور لوگوں کو بتایا کہ کیسے میرے قابل میاں صاحب ہر بار تھیوری ٹسٹ سے فیل ہو کر آ جاتے تھے اور تب تک اڑاتی رہی جب تک کہ خود ہم اس ڈرائیونگ کلاس کی بھول بھلیوں میں گم نہ ہو گئے۔ یہی کوئی پانچ سات برس پہلے ایک فائل ہم نے بھی کھلوا لی ڈرائیونگ کی۔

۔ ہم جنہوں نے تین پہیوں کی سائکل کے بعد دوسری ڈرائیونگ اسی کار سے شروع کی جو ڈرائیونگ سکول والے انسٹرکٹر ہمیں سکھانے کو لے کر آئے۔ ہمیں کہاں خبر تھی وہ موضوع جس پر لکھنے کے لئے میرے پاس کچھ نہ تھا وہ ایک دکھوں بھری داستان نکلے گی۔ تو وہ دکھ بھری داستان یہی کوی پانچ چھ سال پہلے شروع ہوئی جب ہم بھی گردن اکڑا کر ڈرائیونگ سکول میں جا داخل ہوے اور کالج یونیورسٹی کی کتابوں کی طرح نوٹس بناتے یاد کرتے تھیوری کو رٹتے چلے گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2