جعلی خبروں کے سیلاب سے کیسے نمٹا جائے، کیا پاکستان میں جعلی خبریں پھیلانا بہت آسان ہے؟


فیک نیوز

ملیکہ بخاری قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ وہ جولائی میں ہونے والے انتخابات میں پہلی بار پارلیمنٹ کا حصہ بنی ہیں۔

چند ہفتے پہلے وہ ایک میٹنگ میں تھی کہ ان کا فون بے تحاشا بجنے لگا۔ پہلے تو انھوں نے توجہ نہیں دی لیکن جب اپنے مسیجز چیک کیے تو پتہ چلا کہ ان کے جاننے والے انھیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چئیرپرسن مقرر ہونے پر مبارکبادیں بھیج رہے ہیں۔ ان کی تقرری کا نوٹفیکشن بھی انھیں میسجز میں بھیجا گیا تھا۔

ملیکہ کہتی ہیں کہ اس نوٹیفکشن کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع ہو گئی۔ ان پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے، جن میں ایک بڑا الزام یہ تھا کہ وہ عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کی بہن ہیں۔ اور انھیں یہ عہدہ ان کے ’بھائی‘ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

ملیکہ کہتی ہیں کہ پہلے تو وہ بہت حیران ہوئیں، کیونکہ وہ ایسا کوئی ادارہ چلانے کا تجربہ نہیں رکھتی تھیں۔ پھر انھوں نے اپنی پارٹی سے چیک کیا تو انھیں بتایا گیا کہ نوٹفیکیشن جعلی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’مجھے بہت غصہ آیا کہ لوگ کس طرح ایک جعلی نوٹیفکیشن کے بنیاد پر میری کردار کشی کر سکتے ہیں۔‘

https://www.facebook.com/bbcurdu/videos/2166938980299990/

ملیکہ کہتی ہیں کہ اپنے خلاف مہم سے تنگ آ کر سوشل میڈیا پر انھوں نے خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اعلان کیا کہ یہ فیک نیوز ہے لیکن کسی نے ان کی وضاحت پر کان تک نہیں دھرے۔

اور پھر ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے بھی اس خبر کو سوشل میڈیا سے اٹھا کر بنا تحقیق کے نشر کر دیا۔

’میرا نام اور میری تصویریں ایک ایسے شخص سے جوڑی جا رہی تھیں جس کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پانچ روز تک اس جھوٹی خبر اور جعلی نوٹیفکیشن کو پاکستان تحریک انصاف کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ عورت ہونے کی حیثیت سے میرے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔ میں ایک مضبوط شخص ہوں لیکن اس فیک نیوز نے مجھے بری طرح ہلا کے رکھ دیا۔‘

ملیکہ بخاری

’میں ایک مضبوط شخص ہوں لیکن اس فیک نیوز نے مجھے بری طرح ہلا کے رکھ دیا’

پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں گذشتہ چند سال میں سوشل میڈیا کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس نے جہاں لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم دیا ہے وہیں کئی چیلنج بھی پیدا کیے ہیں۔

انھی میں سے ایک فیک نیوز ہے۔

محمد صہیب جرنلزم کے طالب علم ہیں۔ گذشتہ برس انھوں نے شرارت میں نوازشریف کے خلاف پانامہ مقدمے کا جعلی فیصلہ بنایا تھا۔

جس دن فیصلہ متوقع تھا اس دن اسے مذاق سے اپنی کلاس کے واٹس ایپ گروپ پر شئیر کیا۔ کسی طرح وہ فیصلہ گروپ سے باہر بھی شئیر ہو گیا۔

اور پھر اتنا وائرل ہوا کہ رات کو کئی چھوٹے بڑے ٹی وی چینلوں کے اینکرز اصل فیصلے کی بجائے صہیب کے بنائے جعلی فیصلے پر ہی تبصرے کرتے رہے۔

فیک نیوز کے مسئلے کے بارے میں مزید جانیے

’فیک نیوز‘ کی نشاندہی کا سرکاری اکاؤنٹ بھی جعلسازی کا شکار

ٹوئٹر پر کھوٹے کو کھرا کر کے بیچنے والے

جعلی خبروں سے کیسے نمٹا جائے؟

سوشل میڈیا پر لنگڑاتا سچ اور دوڑتا جھوٹ

صہیب کہتے ہیں کہ جب جعلی فیصلہ وائرل ہوا تو وہ انتہائی خوفزدہ ہو گئے۔ اس کے پیچھے ان کی بدنیتی نہیں تھی، صرف کالج کے لڑکوں کی ایک شرارت تھی۔

’میں نے ٹی وی لگایا تو اپنے بنائے فیصلے کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اپنے اساتذہ اور دوستوں کو فون کیے اور پھر چینلوں اور شوشل میڈیا پر اسے رکوانے کی کوششیں کرنے لگا۔‘

صہیب کہتے ہیں کہ اس دن انھیں یہ بھی احساس ہوا کہ پاکستان میں جعلی خبریں پھیلانا کتنا آسان ہے، اور یہ کہ صحافی کسی بھی دستاویز کو سوشل میڈیا سے اٹھا کر اعتماد سے نشر کر دیتے ہیں اور اس کی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔

’ہم نے جان کر نوٹیفکیشن میں غلطیاں بھی چھوڑی تھیں تاکہ یہ جعلی لگے۔ جیسے ہم نے آئین کا آرٹیکل 63 ون ایف اور 1890 کے قانونِ شہادت کے آرڈیننس کے حوالے دیے۔ یہ قانون تو موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن کوئی اسے پکڑ ہی نہیں سکا۔‘

وزارت اطلاعات

تاہم ملیکہ بخاری کے واقعے کے بعد پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ’فیک نیوز بسٹر‘ کے نام سے ایک اکاؤنٹ بنایا ہے۔

چند ہی دنوں میں اس اکاؤنٹ کے فالورز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ہے، لیکن اس اکاؤنٹ پر سوائے حکومت اور تحریک انصاف کے حوالے سے خبروں کے کسی اور فیک نیوز کو ’بسٹ‘ نہیں کیا گیا۔

وزارت کے سائبر ونگ کے ڈی جی جہانگیر اقبال کہتے ہیں کہ حکومتی ادارہ ہونے کے باعث ان کا مینڈیٹ یہی ہے۔

’ہمارے ہاں فیک نیوز پھیلانے والے کو قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن لوگوں کو اس بات کی بالکل آگہی نہیں۔ بہت سے لوگ تو لاعلمی میں اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ بہت سے گروہ منظم طریقے سے جعلی خبریں پھیلانے میں مصروف ہیں۔‘

فیک نیوز

کئی صحافی کسی بھی دستاویز کو سوشل میڈیا سے اٹھا کر اعتماد سے نشر کر دیتے ہیں اور اس کی تحقیق کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے

پاکستان میں آزادیِ اظہار کے کارکن سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل میڈیا کو خود کرنا ہو گا۔ سرکاری سطح پر تجویز کیا گیا حل قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی پروگرام مینیجر صدف خان کہتی ہیں کہ اگر یہ حل حکومت کی طرف سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ محض پروپگینڈہ کی شکل اختیار کر لے گی، جس سے معاشرے، جمہوریت، آزادی اظہار کسی کو فائدہ نہیں ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp