گمنام غلام


ادب سماج کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے فکری رجحان کا ترجمان ہوتا ہے۔ ادب انسانی زندگی کی امکانی صورتِ حال کے مطالعے کا نام ہے۔ ادب کی مختلف اصناف اپنے اپنے انداز میں فرد کے ذہنی، سماجی، معاشی، جنسی اور نفسیاتی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ اعلٰی ادب ایسا ادب ہوتا ہے جو زمان و مکاں کی قید سے ماورا ہوتا ہے۔ اچھا ادب آفاقی ہوتا ہے اور ہر دور اور ہر جگہ کے انسان کے موجود ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ شیکسپئیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کوئی شیکسپئیر کو پڑھتا ہے اس کے لئے دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔

ایک بار ایک جاپانی طالبِ علم اپنے برطانوی دوست کے ساتھ تھیٹر گیا جہاں شیکسپئر کا ڈرامہ پرفارم کیا جا رہا تھا۔ ڈرامہ دیکھ لینے کے بعد برطانوی طالبِ علم نے اپنے جاپانی دوست سے کہا کہ اسے ان کرداروں کی کیا سمجھ آئی ہو گی۔ اس نے ترنت سے جواب دیا کہ یہ سارے کردار تو جاپانی تھے۔ انسان چاہے دنیا کے کسی کونے میں بھی رہتا ہو اس کے اکثر مسائل سانجھے ہوتے ہیں۔ ایک ادیب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ حساس ہوتا ہے اور انسانوں کی مختلف کیفیات کو محسوس کرتا ہے اور انہیں زینتِ قرطاس بنا دیتا ہے۔ ہماری پنجاب کی دھرتی نے بھی بڑے بڑے نامور شعرا پیداکیے جن کے فکر و فن کی روشنی ہر حساس دل میں سرایت کر جاتی ہے۔ ان کے کلام میں کمال کہ ہمہ جہتی پائی جاتی ہے۔

غلام حسین ہماری دھرتی کے ایک ایسے شاعر ہیں جو شاید گمنام رہتے ہوئے بھی کسی نابغے سے کم نہیں۔ غلام حسین کا تعلق چکوال کے ایک چھوٹے سے گاؤں موہڑہ گلشیر سے ہے۔ غلام حسین اپنے علاقے میں غلام کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔ کبڈی کا میچ ہو یا والی بال کا، محفلِ موسیقی ہو یا کوئی مشاعرہ، سیاسی جلسے ہوں یا کوئی ثقافتی شو، غلام حسین ہر موقعے پر سٹیج کی زینت ہوتے ہیں اور اپنے جادوئی فنِ سخن سے میلہ لوٹ لیتے ہیں۔

غلام حسین ایک آزاد منش اور جدید دور کے جھمیلوں سے کوسوں دور رہنے والے انسان ہیں۔ انہیں پنجابی شاعری میں ملکہ حاصل ہے۔ غلام حسین کی تخلیقی صلاحیتیں کمال کی ہیں۔ ایسی ایسی تلمیحات اور استعارے لگاتے ہیں کہ سننے والوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ عشق کرنا اور پھر عاشقوں کا بچھڑجانا اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ غلام حسین اپنے کلام میں اس کرب کو کیسے بیان کرتے ہیں آئیے ان کی نظم پڑھ کے دیکھتے ہیں۔

‘ اسیں دوویں پھا دیاں اوڑیں ساں سانوں قسمت پاڑا پا گئی اے

ایہ وکھو وکھ کی ہوندا اے سانوں وساں نال وکھا گئی اے
توں وی سوہنڑیں بالی کنڑکے دی میں وی بانکا سِٹہ کنڑکے دا

تینڈا جُسہ گبھی تور جئی میں سٹہ تھونڑ اِچ موڑ جہیا
اسیں دؤویں اک دن نپے گئے انہاں ظالم ہتھوں کپے گئے

توں ہور پھری وِچ بجھ گئی ایں میں ہور گڈی وچ بجھ گیا واں
توں ہور گری وچ لگ گئی ایں میں ہور بگے وچ لگ گیا واں

انہاں ظالم لوکاں گاہ پایا سانوں وکھرے وکھرے راہ پایا
توں ہور کھلاڑے وِچھ گئی ایں میں ہور کسے جائی گڑھ گیا واں

توں ہور دھڑے وچ وسی گئی میں ہور کرائی تے چڑھ گیا واں
توں ہور کسے جائی کِر گئی ایں میں ہور کسے جائی کِر گیا واں

ساڈا سانجھ دا سُفنہ بانجھ گیا سانوں بخت دا مانجا مانج گیا
توں غم نال پڑوپیاں ناپی گئی مینوں غم دے چھا نال مِنڑ گئے نی
ایہہ پیار دے ویری مورکھ جئے مینوں نگ سمجھ کے گن گئے نی
توں کہڑی ٹِسکے چڑھ گئی ایں میں کہڑے رولیچ پے گیا واں
توں ہور گھلوٹے اچ پے گئی ایں میں ہور بھڑولے اچ پے گیا واں
اسیں دوئے چکی دیاں پاٹاں وچ کئیں پُڑاں تے کئیں کھراساں وچ
توں ہور کسے جائی پس گئی ایں میں ہور کسے جائی پس گیا واں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).