۔گلگت بلتستان میں موسم خزاں کےرنگ۔۔



بہتر ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا گلگت بلتستان کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال اس خطے کو سیاحوں کی جنت اور پاکستان کےماتھے کا جھومر بھی کہا جاتا ہے۔دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ بھی یہاں ملتے ہیں۔

یہاں سال میں چار موسم بدلتے ہیں۔ ہر موسم کا اپنا لطف اور خصوصیات ہوتی ہیں، اور یہاں کا ہر رنگ نرالا ہوتا ہے۔موسم بہار کا آغاز فروری کے دوسرے ہفتے سے ہوجاتا ہے۔اس دوران یہاں کے زمین دار اپنے کھیتوں میں کاشتکاری کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔

اپریل اور مئی میں یہاں پر پوری طرح ہریالی آجاتی ہے، بادام اور خوبانی کے درختوں کے پھول کھل جاتے ہیں۔یہاں بادام اور خوبانی کی مختلف اقسام پائے جاتے ہیں، اور ان کے پھولوں کا رنگ بھی ایک دوسرے سے مخلتف ہوتا ہے۔ جب یہ پھل دار درخت پوری طرح کھل جاتے ہیں تو یہاں کے نظارے دل کو چھوتے ہیں۔


اس دوران کسی اونچائی پر بیٹھ کر کسی وادی کا نظارہ نصیب ہو تو انسان کا من کرتا ہے کہ بس یہی رہ کر قدرت کے ان حسین نظاروں سے خوب لطف اندوز ہوں۔ موسم بہار کے ان پھولوں کی خوشبووں سے پورا علاقہ ہی معتر ہوجاتا ہے، ۔

اپریل کے آخری ہفتے یہ پھول آہستہ آہستہ غائب ہوجاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سبز پتے نکل آتے ہیں۔ اسی دوران گرمی کے ستائے بلبل بھی ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو ان سبز پتوں میں چھپ کر اپنے منفرد اور دل کو چھونے والی آوازوں میں گیت گاتے موسم بہارکی خوشیاں مناتے ہیں۔

اس کے بعد گرمی کا موسم شروع ہوجاتا ہے،دھوپ بھی اپنی تپش دیکھانا شروع کردیتی ہے جس کے باعث پہاڑوں پر موجود برف پگلتی ہے اور دودھ کی مانند چھوٹے بڑے آبشاروں کی صورت میں اونچائی سے گرتے ہوئے دریا میں شامل ہوجاتے ہیں۔یہ وہ موسم ہے جو یہاں کی مشہور سیاحتی مقامات دیوسائی،شندور،فری میڈوس، بابوسر ٹاپ، ککش جھیل پھنڈر،راما،اور خنجراب کے راستے کھول دیتا ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد ان علاقوں کا رخ کرتی ہیں۔اور ان حسین نظروں کو اپنے کیمروںمیں قید کرکے حسین یادوں کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

موسم گرما کے بعد آتا ہے موسم خزاں اس موسم کے آمد پر زمین دار اپنی اور جانوروں کی خوراک زخیرہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ موسم خزاں سمتبر کے دوسرے ہفتے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔موسم خزاں کو بیان کرنا میرے لئے خاصا مشکل ہے یہ موسم رنگوں کا ایک نیا بہار لیکر آتا ہے میں کس کس رنگ کو لکھو اور کس رنگ کو کس رنگ سے زیادہ خوبصورت لکھو کیونکہ ہر رنگ دوسرے سے زیادہ پرکشش اور خوبصورت ہے۔

موسم خزاں کےشروع ہوتے ہی درختوں کے پتوں کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔ان میں زیادہ تر درختوں کا رنگ پیلا یا زرد ہوتا ہے ۔ان پودوں میں خوبانی کی ایک قسم ایسی پائی جاتی ہے جس کے پتوں کا رنگ اس موسم میں سبز سے بدل کر بلکل سرخ ہوتا ہے ،اور وہ بہت کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ان رنگوں میں یہ رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے اگر خوبانی کا یہ درخت دیگر درختوں کے بیچ میں موجود ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے لوگوں کے جھرمٹ میں کسی دولہن کو لے کر آرہے ہوں۔اس کے بعد چنار اپنے بڑے بڑے پتوں اور اپنے لمبے قد زریعے اپنا الگ شناخت رکھتا ہے۔

گرمیوں میں ٹھاٹے مارتا شور کرتادریا جو اپنے دیکھنے والوں پر خوف طاری کردیتا ہے، موسم خزاں میں یہ بلکل خاموش ایسے چلتا جیسے رک سا گیا ہو۔ یہ دریااپنا رنگ کہئی سیاہی جیسا دیکھاتا ہے تو کہئی اس کافروزہ رنگ دیکھتے جی نہیں بھرتا۔اس موسم میں جب شمالی سرحدوں سے ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوجاتے ہیں تو درختوں سے ان خوبصورت رنگوں والے پتے بے ساختہ گرنا شروع کردیتے ہیں۔

گلگت بلتستان کا یہ موسم خزاں کی خوبصورتی ان دنوں اپنے عروج پر ہے، یہ موسم بہار اور موسم گرما کی یادوں کو بھی بھلا دیتا ہے یہ سیاحوں کے لئے سیروتفریح کا بہترین موسم ہے، لیکن اس موسم میں سیاح گرمیوں کی طرح ایک قمیض کے ساتھ گاڑیوں کی چھتوں میں چھڑ کر نظارے نہیں کرسکتے ۔اس موسم میں گلگت بلتستان آنے والے سیاح اپنے ساتھ گرم ملبوسات لے کر آتے ہیں۔ہاں ان دنوں سیاح دیوسائی،فری میڈوس،بابوسر ٹاپ،پھنڈر، راما نہیں جا سکتے کیونکہ یہ مشہور سیاحتی مقامات برف کی موٹی چادر اوڑھ کر آرام کررہے ہیں۔

لیکن پہاڑوں کے دامن میں دنیا کے تمام رنگوں سے سجے یہ خوبصورت وادیاں سیاحوں کے لئے نہ صرف سیروتفریح کا بہترین سامان فراہم کردیتی ہیں بلکہ قدرت سے محبت کرنے والوں کو دعوت بھی دے رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).