لڑکیوں پر بری نظر ڈالنے والے


” سگنل کی لال بتی جلی اور گاڑیاں ایک ایک کرکے رکنے لگیں، اپنے ہیلمٹ کی کھڑکی اٹھائی تو اپنے آگے والے بائیک سوار پر نظر پڑی، اس کی نظریں سیدھے ہاتھ پر بڑے اشتیاق سے کسی کو گھوررہیں تھیں، ابھی میری نظریں اسی طرف جا رہیں تھیں کہ اس کے برابرمیں ایک رکشے والے کو دیکھا وہ بھی للچائی نظروں سے اسی طرف نگاہیں چپکائے بیٹھا تھا۔ تجسس انسانی فطرت ہے، سو نظریں اسی طرف اٹھائیں جہاں خلقت کو دیکھتا پایا۔

دیکھا کہ موٹر سائکل پر ایک بزرگ، نظر کا چشمہ لگائے پسینہ پسینہ گھبرائے گھبرائے کھڑے تھے، اس عمر میں بائیک چلانا واقعی مشکل ہوتا ہے، پر لوگوں کی نظروں کا مرکز وہ نہیں تھے، بے شک نہیں تھے۔

وجہ تھی، بلکہ تھیں، پیچھے بیٹھی ان کی دو صاحبزادیاں، جی دو نوجوان لڑکیاں، جو ان کے ساتھ ایک ہی بائیک پر تھیں، تین لوگوں کی وجہ سے دونوں کافی مشکل میں تھیں جگہ کم ہونے کی وجہ سے وہ پھنس کر بیٹھیں تھیں، جس کی وجہ سے ان کے کپڑے بے ترتیب ہو گئے تھے، اور وہ کوشش کے باوجود ان کو ٹھیک نہیں کر پارہیں تھیں اور آس پاس کے کچھ لوگ، وہ لوگ جن کی ہوس بھری نگاہیں، شیطانیت سے بھری، بے شرم اور بے حیا نگاہیں، اپنی بیٹی کی عمر کی ان لڑکیوں کو گھور رہی تھیں، جس کا احساس ان لڑکیوں کو بھی تھا، سگنل بند ہونے کے چند لمحے، ان پر عذاب کی طرح گزر رہے تھے کبھی اپنا اسکارف ٹھیک کرتیں کبھی دامن، تو کبھی نظریں جھکا لیتیں۔

کچھ لوگوں کے لئے شاید یہ منظر ایک عام بات ہو پر یہ درد، یہ مشکل، یہ بے چارگی کوئی ان لڑکیوں سے پوچھے جو بھیڑ میں ہمارے آس پاس، روزمرہ کے کام، پڑھائی یا کسی بھی ضرورت کے لئے نکلتی ہیں اور ان نگاہوں کا شکار بنتی ہیں۔ اس میں عمر کی تعلیم، اسٹیٹس کی کوئی قید نہیں یہ نگاہیں کسی بھی وجود کی ہو سکتی ہیں اور کسی بھی وجود پر ہو سکتی ہیں۔

اس بیماری کا حل صرف سچی اور اچھی تربیت ہے جو صرف ماں باپ نہیں بڑے بہن بھائی، رشتے دار، خاندان کے بڑے اور فی زمانہ سب سے اہم کردار میڈیا کا ہے جو میڈیا دن رات دکھائے گا، وہی اثر معاشرے پر نظر آئے گا۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا تو اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے، آواز بلند کرتا ہے پر گھروں میں اور ملک کے 95 فیصد لوگوں تک رسائی رکھنے والا الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا “جو بکتا ہے وہی دکھتا ہے” کے مصداق اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے مال بنانے پر توجہ رکھے ہوئے ہے۔ پھر جو ہورہا ہے وہی ہونا ہے اور وہی ہوتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).