بچوں سے جنسی زیادتی کا رجحان


دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچے مردوں کے جبر سے محفوظ نہیں۔ بچوں کی بڑی تعداد کم سنی کے ایام میں نوجوان اور اوباش قسم کے مرد حضرات کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے بچوں سے جنسی جبر کی تاریخ بھی انسانی تاریح کی طرح پرانی ہے۔ شاید ہی کوئی دور ہو جب بچے اس ظلم سے محفوظ رہے ہوں۔ جس طرح نیکی اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس طرح بچے بھی بڑوں کے گناہوں کا فی زمانہ شکار رہے ہیں۔ عموماً فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچوں کو ان کے سنیئر جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جب کہ گلی محلوں میں گھروں سے باہر کھیل کود میں مصروف بچے اکثر اوقات اس ظلم کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پہلے کوئی انہیں لالچ دے کر اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور پھر بچے آہستہ آہستہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور یہ شوق انہیں جوانی میں بدنام کرانے کا موجب بنتا ہے۔ ریسرچ کے دوران میری درجنوں بچوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جب کہ نوجوان اور بوڑھے افراد سے ان کے بچپن کے بارے میں پوچھا تو 15 فیصد سے زائد افراد نے اقرار کیا کہ جب وہ بچے تھے تو انہیں محلے کے فلاں دکاندار، فلاں پتنگ باز وغیرہ نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ مردوں، خصوصاً نوجوانوں سے اس بات کا قرار کرانا بہت کٹھن کام تھا اور مجھے اس سلسلے میں بڑی محنت کرنا پڑی اور انہیں قائل کرنا پڑا کہ جناب! آپ تب چھوٹے تھے آپ کا کیا قصور تھا۔ پھر بھی کئی قابو میں آئے اور کئی صاف مکر گئے حالانکہ مکرنے والوں کا انداز صاف ان کے جھوٹے ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔

بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا باعث حیرت نہیں لیکن باعث غم ضرور ہے کیونکہ کئی ایک واقعات ایسے بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں کسی نوجوان یا اوباش مرد نے گلی میں کھیلتے ہوئے بچے کو اشارہ کر کے اپنے پاس بلایا، اسے ٹافی، مٹھائی یا کھیلنے کی کوئی چیز دینے کا لالچ دیا اور پھر اس طرح جنسی پیاس بجھائی کہ بچہ بے ہوش ہو گیا اور پھر پکڑے جانے کے خوف اس بدخصلت شخص نے بچے کا گلہ دبا کر اس کو ہلاک کیا اور اس کی لاش کہیں دور دراز علاقے میں پھینک دی یا وہیں گڑھا کھود کر اسے دفن کر دیا۔ ایسے ہی ایک کیس میں لاہور میں ضیاء الحق کے دور میں ایک معصوم بچے پپو کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود بچوں سے جنسی زیادتی کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔

کوئی شہر، کوئی گاؤں یا کوئی گلی محلہ ایسا نہیں جہاں بچے محفوظ ہوں۔ ایک نوجوان کاشف نے بتایا کہ وہ جب گھر سے کھیلنے نکلتا تھا تو اس کی ماں کہا کرتی تھی کہ اگر کوئی آدمی تمہیں اپنے پاس بلائے تو اس نہ جانا اور صرف اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا۔ کاشف نے ہمیشہ اپنی ماں کی نصیحت کو ذہن میں رکھا۔

لیکن ایک روز جب وہ ساتھ والے گھر میں پتنگ پکڑنے گیا تو وہاں موجود ایک نوجوان نے نہ صرف اسے وہ پتنگ دی بلکہ ساتھ ڈور بھی دی اور کئی گڈیاں مزید دینے کا وعدہ کیا۔ وہ بچہ بہت خوش ہوا لیکن اس نوجوان نے اس خوشی کی قیمت فوراً ہی وصول کر لی اور ساتھ ہی اسے کہا کہ کسی نے بتانا نہیں ورنہ اور بچے مجھ سے ڈور لے لیں گے او ر اسے کچھ نہیں ملے گا۔ بچے معصوم ہوتے ہیں اور ان کے ذہن میں جو بات آ جائے کمپیوٹر کی طرح دل میں محفوظ کر لیتے ہیں۔

لہٰذا کاشف دوپہر کے وقت گاہے بگاہے ہمسائے کے گھر چھت پر جاتا اور ایک دو گڈیاں لے کر واپس آ جاتا۔ ایک روز کسی اسے دیکھ لیا اور اس کی ماں کو بتا دیا۔ ماں نے لڑائی جھگڑے کے ڈر سے یہ بات شوہر کو تو نہ بتائی مگر اپنے بچے کی پٹائی کر ڈالی۔ ساتھ ہی اس نے ہمسائے میں جا کر بدخصلت نوجوان کی ماں سے شکوہ کیا تو اس نے اسے سمجھایا کہ مردوں کے علم میں یہ بات آ گئی تو خون خرابہ ہو جائے گا اس لئے اپنی اولاد کو لگام دو۔

ہزار احتیاط کے باوجود بات کاشف کے والد تک پہنچ گئی اور اس نے بھرے بازار میں اس نوجوان کو جس کا نام کاشف نے طارق بتایا تھا خنجر مار کر زخمی کر دیا۔ پولیس آئی، کاشف کا والد گرفتار ہوا مگر چند دنوں بعد ہی ضمانت پر رہا ہو گیا۔ لیکن اس واقعہ نے مستقل دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔

اس طرح کے واقعات ہماری سوسائٹی کا حصہ ہیں اور بہت کم خاندان اس سے محفوظ ہیں۔ عموماً آٹھ سے 14 سال کے بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے 40 فیصد ایسے افراد ہوتے ہیں جو بڑے ہو کر دوسرے بچوں سے بدلہ لیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ظلم کی سب سے لرزہ خیز واردات لاہور میں 1999 ء کے آخری ایام میں ہوئی جب ایک بدخصلت انسان جاوید اقبال نے 100 سے زائد بچوں کو ایک ایک کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ پولیس اس کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی اور آخر کار اس نے خود ہی گرفتاری دے دی۔ اگرچہ اس کو موت کی سزا بھی ہو چکی ہے مگر کیا 100 ماؤں کے معصوم واپس لوٹ آئیں گے؟
کتاب ”عورت اور بازار“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).