امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں ووٹنگ جاری


ووٹنگ

امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں جنھیں صدر ٹرمپ کی صدارات پر ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے، ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

وسط مدتی انتخابات میں ایوان نمائندگان کی 435 نشتوں، سینٹ کی ایک تہائی نشتوں کے علاوہ کئی گورنروں اور ریاستی قانون ساز اداروں کی نشتوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

مریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو ایک ووٹ سے برتری حاصل ہے اور اگر ڈیموکریٹ پارٹی نے پہلے سے دو نشتیں بھی زیادہ حاصل کر لیں تو سینٹ میں ان کی برتری قائم ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ نے اپنی طاقت کو بچانے کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کے لیے سرتوڑ الیکشن مہم چلائی ہے اور ایک دن میں کئی کئی ریاستوں میں انتخابی جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ انھوں نے آخری روز تین مختلف ریاستوں میں تین ریلیوں سے خطاب کیا۔ صدر ٹرمپ نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پچھلے دو برسوں میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ سب داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

سابق صدر براک اوباما ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدواروں کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ انھوں نے ایک ریلی سے ِخطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں امریکہ کا کردار داؤ پر لگا ہوا ہے۔

امریکہ میں انتخابات

داؤ پر کیا لگا ہے؟

ان انتخابات میں امریکی ایوانِ نمائندگان کی تمام 435، جبکہ سینیٹ کی ایک سو میں سے 35 نشستوں کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ان دونوں ایوانوں کو ملا کر کانگریس بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ان وسط مدتی انتخابات میں امریکہ کی 50 میں سے 36 ریاستوں کے گورنروں کے انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔

اگر ان انتخابات کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی ایک یا دونوں ایوانوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو وہ نہ صرف صدر ٹرمپ کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہے بلکہ صدر کے منصوبوں کو پلٹا بھی سکتی ہے۔

انتخابات کے جائزوں پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹس ایوانِ نمائندگان کی 23 نشستوں پر کامیاب ہو سکتے ہیں، جس سے یہ ایوانِ نمائندگان کے کنٹرول میں آ جائے گا اور اس بات کا امکان بھی ہے کہ ڈیموکریٹس تقریباً 15 مزید نشستیں جیتنے میں بھی کامیاب ہو جائے۔

تاہم، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو جتنی نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے اس کے بعد بھی ان کی کل نشستیں سینیٹ میں برتری حاصل کرنے سے دو کم ہی رہیں گی۔

جب پیر کو صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ اگر ان کی مخالف جماعت ایونِ زیریں میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ کیا کریں گے، توصدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو حقیقت سے دور نہیں۔

صدر کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو ‘ہمیں اپنا کام ذرا مخلتف انداز میں کرنا پڑے گا’۔

امریکہ میں انتخابات


تجزیہ: جان سوپل، بی بی سی شمالی امریکہ

صدور ہمیشہ توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ تھیوڈور روزویلٹ وائٹ ہاؤس کو ‘دھونس کا منبر’ کہتے تھے جہاں سب نظریں ان پر ہوتی تھیں اور وہ اپنا ایجنڈہ آگے بڑھا سکتے تھے۔

لیکن ڈانلڈ ٹرمپ نے اشتعال انگیز باتیں کرنے کے لیے ٹویٹر کی شکل میں اپنے لیے نیا منبر اپنایا ہے جہاں پچپن ملین لوگ انہیں فالو کرتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ میں کام صدر ٹرمپ کی کسی بات کا رد عمل ہے۔ ان کو فالو کرنے والے خوش ہوتے ہیں اور مخالفین پریشان اور امیدوار بحث کا حصہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس رجحان نے انتخابات کو دلچسپ کر دیا ہے۔

اوہایو، انڈیانا اور میزوری میں اپنے اختتامی انتخابی ریلیوں میں صدر ٹرمپ نے اپنی مہم کے اہم نعرے دہراتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹ معیشت کو تباہ کر دیں گے اور مزید غیر قانونی تارکین وطن کی امریکہ آمد کی وجہ بنیں گے۔

دریں اثناء ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں نے براہ راست صدر کو مخاطب کرنے کی بجائے ہیلتھ کیئر اور اقتصادی عدم مساوات کو موضوع بنایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp