خدا کرے چین چَین بنے


وزیر اعظم پاکستان آج کل چین کے سرکاری دورے پر ہیں۔ ملک جس معاشی بحران کا شکار ہے اس کے لئے کسی بھی حکومت اور خصوصاً حکمران کی پریشانی بجا ہے لہٰذا وہ پریشانی حکمران کے چہرے سے عیاں ہے۔ ایک جانب نہ تو امن و امان کے لحاظ سے ملک کے اندرونی حالات اچھے ہیں اور نہ ہی سرحدیں پر سکون تو دوسری جانب پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات راتوں کی نیندیں اڑانے اور دن کا سکون برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں معیشت کو سہارا دینے کے لئے ایک حاکم کے بس میں جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر گزرنے میں لگا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کتنی ہوتی ہے اور پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکال لیا جاتا ہے یا ماضی کی طرح مزید قرضوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

قرضے اب ہر آنے والی حکومت کے لئے ایسا نشان امتیاز بن گئے ہیں کہ حکومت شرمندگی سے بچنے کے لئے لی گئی رقم یا سہولت کو کبھی امداد کا نام دینے لگی ہے اور کبھی ’پیکیج‘ کہہ کر اپنی شرمندگی کو چھپا نے کی کوشش کرتی ہے۔ چند ہفتے قبل سعودی عرب سے جو معاہدہ ہوا اس کو ’پیکج‘ کا نام دیا گیا اور اب چین سے جو کچھ بھی سہارا ملنے کی امید ہے اس کو امداد کا نام دیا جا رہا۔

اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کچھ بھی ہو پاکستان کو ڈالرز اور دیگر بہت ساری ’سہولیات‘ چاہئیں ورنہ پاکستان بڑی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے قرض اور امداد کے سہارے ہی چل رہا ہے لیکن یہ امداد یا تو عالمی بینک سے لی جاتی تھی یا پھر آئی ایم ایف سے حاصل کی جاتی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ بینکوں سے ایک روپیہ بھی بنا کسی ضمانت نہیں لیا جاسکتا اور جب معاملہ کھربوں کا ہو تو یہ یونہی نہیں مل جایا کرتے۔ قرض دینے والے جب تک اس بات کا جائزہ نہ لے لیں کہ مقروض ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، تب تک وہ کسئی صورت قرض نہیں دیا کرتے۔ ہر بینک، ادارے یا قرض دینے والے ملک کی اپنی اپنی شرائط ہوتی ہیں اور قرض لینے والا اس بات کی تگ و دو میں ہوتا ہے کہ جس سے زیادہ سے زیادہ رعایت مل سکے اس سے قرض حاصل کیا جائے۔

موجودہ حکومت کے پیش نظر بھی یہی بات ہے جس کی وجہ سے وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے اس کوشش میں ہے کہ کسی ایسے ادارے، بینک، حکومت یا دوستوں سے قرض لے جس کی ادائیگی آسان ہو۔ اسی کوشش کا ایک مناسب حل سعودی حکومت سے نکالاگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکومت ہمیشہ پاکستان کی مالی مدد میں پیش پیش رہی ہے۔ وہاں سے تین سال کے لئے 3 ارب ڈالرز اور 3 سال کے لئے اتنی ہی مالیت کا ادھار تیل کا ’پیکج‘ ملاہے۔

ماضی کی طرح پاکستان کی موجودہ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وہ آئی ایم ایف کی طرف جائے اس لئے کہ اس کی شرائط زیادہ کڑی ہوتی ہیں جس سے عوام پر معاشی بوجھ بہت زیادہ پڑجاتا ہے جو مہنگائی کی صورت میں عوام کے سامنے آتا ہے۔ ایک جمہوری حکومت کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر حکومت عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی بجائے مزید بوجھ لاد دیتی ہے جس کی وجہ سے حکمران جماعتوں کی جانب سے عوام میں نفرت بڑھ جاتی ہے اور پارٹیوں کو اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مسلم لیگ ق اور ن اور پی پی پی کی یہی تاریخ ہے اور اسی بنیاد پر عوام نے انھیں اپنے آپ سے دور کرکے پی ٹی آئی کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔

عمران خان کی کوششیں اپنی جگہ لیکن اب تک کی صورت حال عوام کے اس خواب سے بہت مختلف ہے جو ان کو پی ٹی آئی کی جانب سے دکھائے گئے تھے۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد بے شک اس صورت حال سے شدید پریشان ہوں گے لیکن وہ اب تک نہ صرف پارٹی کے حق میں ڈتے ہوئے ہیں بلکہ پر امید ہیں کہ ان کا کپتان ان کی نیا کو پار لیجانے میں لازماً کامیاب ہو جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کپتان کم از کم ابھی تک آئی ایم ایف سے دور رہنے کی جد و جہد میں کامیاب ہیں لیکن اس کے پاس جانے کے جو بد اثرات عوام پر پڑ سکتے تھے اس سے عوام اور پاکستان کو بچانے میں کپتان کو سخت ناکامی کا سامنا ہے۔ آئی ایف سے قرضہ لینا کا نتیجہ اب تک جو کچھ بھی پچھلے ادوار میں سامنے آیا ہے وہ مہنگائی کے طوفان کی صورت میں ہی آتا رہا ہے۔ ابھی آئی ایم سے ایک دھیلہ بھی ادھار نہیں لیا ہے تب یہ عالم ہے کہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید بے آبرو ہو چکا ہے۔

گیس (سی این جی) کی قیمت میں ایک دو روپے نہیں پورے 27 روپے فی کے جی بڑھا دیے گئے ہیں، پٹرول کی قیمت میں دو ماہ میں 8 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہو چکا ہے اور بجلی کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ یہ صورت حال اس وقت ہے جب آئی ایف سے ایک پیسہ بھی ادھار کی صورت میں نہیں لیا گیا۔ اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان جو امداد سعودیہ سے لے چکا ہے اور جو کچھ اب چین سے حاصل کرنے کی توقعات لگا بیٹھا ہے وہ کہنے کو تو ’امداد یا پیکج‘ ہے لیکن حقیقتاً وہ قرض ہی ہے جس کی ادائیگی کے لئے ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ نیز گیس اور بجلی کے نرخوں میں غیر متوقع رد و بدل کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم آئی ایف کے پاس گئے ہی نہیں اور ابھی ہمیں چین نے کچھ دیا ہی نہیں تو ٹیکسوں، گیس اور بجلی کی مدآت میں اضافہ کس کھاتے میں شمار کیا جائے؟

وزیر اعظم چین کے دورے پر ہیں اور پاکستان کو اسی قسم کی مشکل صورت حال سے نکالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کی کوششیں بارآور بھی ثابت ہو رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ چین نے پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے پر رضامندی کے اظہار کے ساتھ ساتھ معیشت، زراعت، قانون نافذ کرنے اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پندرہ معاہدوں اور یاداشتوں پر دستخط کیے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان معاہدوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور معاشی تعاون کو مزید وسعت دینے میں مدد ملے گی۔

بی بی سی کے مطابق پاکستان کے ساتھ ان معاہدوں پر دستخط کی تقریب ہفتے کو بیجنگ کے تاریخی گریٹ ہال آف پیپلز میں ہوئی جہاں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی چینی ہم منصب ’لی کی کیانگ‘ سے باہمی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے وزراء شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور خسرو بختیار نے پاکستان کی جانب سے ان معاہدوں پر دستخط کیے۔ چین اور پاکستان میں طے پانے والے معاہدوں میں اسلام آباد پولیس اور بیجنگ پولیس اور پاکستان کے اعلی تعلیم کے کمیشن اور چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے درمیان تعاون کی دستاویزات بھی شامل ہیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کو اس وقت تجارتی خسارے کی وجہ سے شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں 42 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر آٹھ بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے جس سے جس طرح بھی ممکن ہو سکے باہر نکلنا ہے ورنہ پاکستان بہت مشکلات کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ وزیر اعظم پاکستان کی حکومت کی کوشش ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ دیگر دوست ملکوں سے بھی مالی مدد حاصل کی جائے تاکہ ملک کی مالی مشکلات کو حل کیا جا سکے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کم سے کم قرضہ لیا جائے۔

امداد مل جانا یا قرض کا حصول بے شک ایک مشکل اور انا کو مردار کردینے کا عمل ہے لیکن اس سے دشوار تر کام قرض کی ادائیگی ہے۔ رقم محنت سے حاصل کی جائے یا بطور قرض لی جائے وہ بہر صورت تصرف میں آجایا کرتی ہے۔ اس سے وقتی طور پر تو آرام مل جاتا ہے لیکن اگر لی گئی رقم کو کسی منفعت بخش کاروبار میں نہیں لگایا جائے تو پھر قرض کے بعد ایک اور قرض لینا زندگی کی سانسیں برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ قرض جو کبھی رائی کے برابر ہوتا ہے، پہاڑ بن جاتا ہے۔

پاکستان کو اسی رائی کا سامنا ہے جو اب ہمالہ جیسی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں اول تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چین یا دوسرے دوست ممالک کیا ایسا قرض دے سکتے ہیں جس کو واپس نہ لیا جائے یا اتنا قرض دے سکتے ہیں جس سے پاکستان موجودہ مشکل صورت حال سے باہر آسکے اور پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جو قرض لیا جائے گا اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے کہ اسے ایسے پراجیکٹ میں لگایا جائے گا جس سے اتنی آمدنی ہو سکے کہ قرض کی اقساط بھی ادا ہو جائیں اور کچھ نہ کچھ پیسہ پس انداز بھی کر لیا جائے؟ اگر منفعت بخش کاروبار کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے تو بہت خوب ورنہ اب لیا جانے والا قرض قوم پر ایک اور اضافی بوجھ ہوگا جس کی شدید مخالفت موجودہ سربراہ حکومت کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔

آگے آنے والے حالات ہی اس بات کی تصدیق کر سکیں گے کہ پاکستان میں کیا ہونے والا ہے۔ قرض حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے لئے حاصل کر رہی ہے یا پاکستان کے لئے خوشحالی کے منصوبے لگانے کے لئے کر رہی ہے۔ بہر حال قوم کو امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور توقع رکھنی چاہیے کہ موجودہ حکومت کے اٹھائے جانے والے اقدامات ملک کو فلاح کی جانب لے کر جائیں گے اور عوام مشکلات سے باہر نکل آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).