سودا کبھی نہ مانیو واعظ کی گفت گو


روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن جیت کر اقتدار حاصل کرنے والے سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت بناتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ”ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ “ آفرین ہے پاکستان کے حوصلہ مند عوام پر کہ کسی نے کو ئی تعرض نہ کیا اور کسی نے یہ سوال کرنے کی جسارت بھی کبھی نہیں کی کہ آپ نے تو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ فرما یا تھا تو پھر اب ہم روٹی کی جگہ گھاس کیوں کھائیں؟

قطع نظر اس سے کہ پھٹے حال اور بے سرو سا مان قوم کو کپڑا اور مکان مل سکایا نہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ ایٹم بم بن گیا۔ قوم کی حالت آج بھی وہ ہی ہے، ترقی صرف اتنی ہو ئی کہ اب ہم گھاس الیکشن کے بعد نہیں کھاتے بلکہ ہماری عقل اس سے پہلے ہی گھاس چرنے چلی جا تی ہے! جس کا جیتا جاگتا ثبوت ہمیشہ سے ہمارے منتخب کر دہ عوا می نمائندے ہوتے ہیں۔ دراصل سیاسی نعرے ہو تے ہی اتنے پر اثر، دل فریب اور سحر انگیز ہیں کہ ان کے عقب میں چھپے گھاگ سیاست دان ہمیں ہر بار نہایت ہی آسانی سے چونا لگا دیتے ہیں۔

ان کے جھوٹے وعدوں، سیا سی نعروں اور بلندو بانگ وعدوں سے بچ نکلنا کم و بیش ہماری قوم نے تو آج تک نہیں سیکھا۔ دو ہزار اٹھارہ کے حالیہ عام انتخابات کی صورت حال بھی ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، تبدیلی سر کا ر کے دعوے، نعرے اور وعدے بھی بڑے ہی مسحور کن اور پر فریب تھے، سوہمارے عوام نے بھی اپنے ماضی کی شاندار روا یات کو بر قرار رکھتے ہو ئے ہمیشہ کی طرح آنکھیں بند کر کے ان وعدوں پر اعتبار بھی کر لیا۔ لیکن یہ بات بھی ہم سب ہی جانتے ہیں کہ

”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا“

ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اب ان دعووں، وعدوں اور نعروں کی تکمیل کی جانب قدم بڑھایا جاتا، بجلی، پانی اور گیس کی کمی پر قابو پا یا جا تا، مہنگائی کے خاتمے کے لیے کو ئی مضبوط اقدامات کیے جا تے، خود انحصاری کا سفر شروع کیا جا تا، لیکن ہنوز دلی دور است۔ کیوں کہ نعرے صرف نعرے ہیں، جن کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ہو تا۔ اس بات کی تصدیق گزشتہ دنوں کراچی کے مقامی ہو ٹل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کچھ یوں فر مائی کہ ”شادی اور الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدے ایک جیسے ہی ہو تے ہیں، جن میں سے کچھ پو رے ہو جا تے ہیں تو کچھ رہ جاتے ہیں۔

“ تاہم اپنے اس بیان کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کر وائی کہ ”ہم نے الیکشن سے پہلے جو بھی وعدے کیے ہیں، انہیں پو را کر نے کے لیے ہماری جدو جہد جاری ہے۔ “ سواب ان کی بات سے اختلاف کرنا یا اس پر من و عن ایمان لے آنا آپ کے اپنے صواب دیدی اختیارات میں شامل ہے۔ شاعربے چارہ تو پکار پکا ر کر یہ ہی کہتا رہا کہ

سودا کبھی نہ مانیو واعظ کی گفت گو
آواز ۂ دُہل ہے خوش آئند دور کا

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انتخابی نعروں اور حقیقت حال میں واضح فرق ہو تا ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ جو عوام ووٹ ڈالتے ہیں وہ ہی آپ کی طاقت ہیں اور وہ ہی آپ کا اثاثہ ہیں، جن کے بل پر حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ اگر عوام کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا اور ان کا کو ئی مناسب حل نہ نکا لا گیا تو یہ ہی عوام اپنی آنکھیں بدلنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگا ئیں گے۔ جس عوام نے ایک کرکٹر کو اپنا آئیڈیل اور پھر سیاست میں آنے کے بعداسے اپنا ہیرو اور اپنا لیڈر بنا لیاکہیں ایسانہ ہو کہ اسی عوام کی جانب سے ناپسندیدگی کی واشگاف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام پہلے ہی شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں، جس کی ایک جھلک ہم تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنوں میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے مختلف واقعات میں دیکھ ہی چکے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت عوامی فلاح، سماجی و معاشی ترقی، غربت کے خاتمے اور مو جودہ ملکی صورت حال کے پیش نظرحکومت کو ایسے تیز ترین انقلابی اقدامات کرنے کی شدید ضرورت تھی جو اب تک نہیں کیے گئے۔ عوام نے حکومت اس لیے منتخب نہیں کی تھی کہ ناجائز تجاؤ ذات کے نام پر ان ہی غریبوں کا جینا حرام کر دیا جا ئے، جنہوں نے تبدیلی کی سرخ بتی کے پیچھے بھاگتے ہو ئے جوق در جوق الیکشن مہم میں بھی حصہ لیا اور ووٹ بھی ڈالے۔ آپ بھلے ہی تجاوزات کے خلاف آپریشن کریں، لیکن کسی غریب سے اس کی چھت نہ چھینیں، بجلی چوری کے خلاف مہم چلائیں، لیکن غریبوں کے گھر وں میں اندھیرا مت کریں۔ نئی ٹرینیں بھی ضرور چلائیں، لیکن خدارا اس سے پہلے آئے روز ہونے والے حادثوں کی روک تھام کے لیے جہاں جہاں ضروری ہے ریلوے پھاٹک ضرور لگا دیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ آپ نے وزیر اعظم ہا ؤس اور گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا یا نہیں؟ آپ نے کتنی گاڑیاں بیچیں؟ کتنی بھینسیں فروخت کیں؟ کتنے پیٹرول پمپ توڑے؟ کتنی کرپشن پکڑی؟ کتنا پیسہ ملک میں واپس لائے؟ کس پر کیس بنوا یا اور کس کو جیل بھیجا؟ نواز شریف کو سزا دلوائیں گے یا نہیں؟ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ عوام کے مسائل یہ نہیں ہیں۔ عام آدمی کامسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کتنی کم ہوئی؟ آٹا، دال، چینی اور چاول کے نرخوں میں کتنی کمی ہو ئی؟ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کوئی نمایاں کمی ہو ئی یا نہیں؟ کرایوں میں کمی ہو ئی یا نہیں؟ تنخواہوں میں اضافہ ہو ایا نہیں؟ لیکن یہ تمام سوالات تا حال صرف سوالات ہی ہیں، ان کے جوا بات کب ملیں گے اور کون دے گا؟
واللہ اعلم بالغیب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).