دیوار چین سامنے ہو تو یو ٹرن لینا ہی پڑتا ہے


چین جانے سے پہلے حکومتی امیر وزیر بیان دے رہے تھے کہ سی پیک سے تمام کرپشن نکال کر اس کی مالیت کو کم کریں گے۔ ایک شیخ صاحب تو ریلوے سی پیک منصوبے کو بھی آدھا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ کہتے تھے کہ ریلوے کے منصوبے کو 8 ارب ڈالر سے کم کر کے چھے ارب ڈالر کیا گیا ہے کیونکہ 2 ارب ڈالر اصل میں کرپشن اور کک بیکس کی رقم کے تھے۔ نیز اسے چار ارب ڈالر کیا جائے گا یعنی کرپشن کی مکمل بیخ کرنی ہو گی۔

بلکہ شیخ و پیر کیا وزیر اعظم نے خود بھی اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کرپشن کے خلاف مہم کا اعلان کرتے ہوئے سی پیک سے منسلک پراجیکٹس پر سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ وہ ان کی لاگت کم کرنے کے لیے چین سے دوبارہ بات چیت کریں گے۔

پھر ایسا ہوا کہ ہمارے وزیراعظم چین پہنچے ہی تھے کہ سامنے دیوار چین آ گئی۔
اب بھلا کیا وزیراعظم اسے ٹکر مار دیتے؟ دانش مند افراد عام دیوار سامنے آنے پر ہی یو ٹرن لے لیا کرتے ہیں۔ یہ تو پھر دیوار چین تھی۔

ایسے دانشمندانہ افعال پر عمران خان نے خود بتایا ہے کہ ”مجھ پر یوٹرنز کا الزام، بتائیں یہ یوٹرنز ہوتے کس لئے ہیں، لینے کے لئے، اب چلتے چلتے سامنے دیوار آجائے تو بندہ یوٹرن نہ لے تو کیا کرے، کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو مڑنے کی بجائے دیوار کو ٹکریں مارتا رہے گا“۔

آپ خود سوچیں کہ عام دیوار اتنے زور سے ٹکر مارتی ہے کہ دلیر ترین افراد بھی اس سے گھبراتے ہیں تو گریٹ وال آف چائنہ کتنا غضب ڈھاتی ہو گی۔

عمران خان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے کہیں گے کہ دیوار چین تو چاند سے بھی دکھائی دیتی ہے تو عمران خان کو کیوں چین جا کر ہی دکھائی دی؟ یہ نرا جھوٹ ہے۔ کاذب ناسا تو خیر فرعون ٹرمپ کے اثر میں ہے لیکن چینی خلاباز یانگ لیوائی تک نے تسلیم کیا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود اسے خلا سے دیوار چین دکھائی نہیں دی۔ چاند تو بہت دور ہے وہاں سے کیسے دکھائی دے گی۔

بہرحال چین پہنچ کر وزیراعظم کو گریٹ وال دکھائی دی تو انہوں نے نہایت دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گریٹ یوٹرن لے لیا۔
قوم کو مبارک ہو۔ سی پیک کم نہیں ہوا۔ الٹا پندرہ نئے منصوبوں اور مفاہمتوں پر دستخط ہو گئے ہیں۔

بات یہ ہے کہ ہمارے آپ کے جیسے افراد محدود ویژن رکھتے ہیں۔ ہمیں معاملات کو یک رخے انداز میں دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم کونسلر تک نہیں بن پاتے۔

جبکہ ایک ویژن والا شخص نہ صرف ایک بڑا لیڈر بنتا ہے بلکہ وزیراعظم تک بن جاتا ہے۔ وہ ہر معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم جب تک پاکستان میں تھے اس وقت تک معاملے کو پاکستانی زاویے سے دیکھ رہے تھے اور جب چین پہنچے تو ادھر چینی اینگل سے دیکھنے لگے۔

پاکستان سے تو یہی دکھائی دے رہا ہو گا کہ ملک میں بے تحاشا اشیا امپورٹس ہو رہی ہیں اور معیشت پر بے انتہا بوجھ پڑ رہا ہے اور اس سلسلے کو کم کرنا چاہیے تاکہ چار پیسے بچیں۔ جبکہ چین میں کھڑے ہو کر دیکھنے سے یہ نظر آیا ہو گا کہ ملک سے چیزیں بے تحاشا ایکسپورٹ ہو رہی ہیں اور اس سلسلے کو مزید بڑھانا چاہیے۔ اس لیے نئی ویژن کے مطابق نیا فیصلہ کر دیا گیا۔

یہ دیکھ کر غالباً چینی بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ کہیں ہمارے ساتھ کوئی معاشی کھیل تو نہیں ہو رہا ہے جسے اپنی محدود ویژن کی وجہ سے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسی ڈر سے انہوں نے مزید سوچنے کی مہلت مانگی ہے کہ سوچ سمجھ کر بات کریں گے۔ بڑے لیڈر سے واسطہ پڑے تو سب ایسے ہی گھبراتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar