جابر عوام کے سامنے کلمہ حق کہنا مشکل ترین کام ہے


معروف دانشور اور ادیب عطا الحق قاسمی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ”بے شک جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا مشکل کام ہے مگر جابر عوام کے سامنے کلمہ حق کہنا مشکل ترین کام ہے“ میٹھا میٹھا لکھنا، کہنا بہت آسان، کڑوا کہنے، لکھنے کی کوشش کی تو کڑواہٹ زدہ تھوکیں بارش بن کر نازل ہوں گی۔ آپ سیاستدانوں کے بے شک لتے لیتے رہیں کوئی مشکل نہ ممانعت، آپ ریاستی اداروں پر بھی جی بھر کر تنقید کریں مشکل تو ہو گی مگر کوئی اتنی بڑی بھی نہیں کہ آپ سہہ نہ سکیں۔

دل کا بوجھ ہلکا کرنا مقصود ہو اور آپ کو معاشرتی بہتری کے دورے پڑتے ہوں تو واپڈا، پولیس، تعلیم، صحت اور اس جیسے دیگر اداروں کے خلاف دل کی بھڑاس نکال لیں بیچارے کچھ نہیں کہیں گے، پھر بھی جی نہ بھرے تو بھلے حکومت کو صلواتیں سنا دیں کوئی مائنڈ نہیں کرے گا بلکہ آپ کو عوامی مسائل اجاگر کرنے کے صلے میں عوامی سطح پر بے باکی کی سند بھی عطا ہو جائے گی۔ مگر کبھی غلطی سے بھی رائے عامہ کے ساتھ پنگا لینے کی کوشش نہ کرنا خاص طور پر جب معاملہ مذہبی جذبات یا صدیوں میں پروان چڑھنے والی عظیم الشان روایات کا ہو بھلے مہذب دنیا اسے شک کی نظر سے دیکھتی ہو۔

ہر دل عزیز بننے کی خواہش دل نامراد میں انگڑائیاں لیتی ہو تو اپنے نظریات اور عقائد آپ کی دریافت کردہ سچائیوں کے برعکس عمومی رائے پر استوار کر لیں، کسی کو آپ سے کوئی مسئلہ ہوگا نہ شکوہ۔ مگر گھٹن زدہ، نرگسیت کے شکار مجموعی طور پر بیمار الذہن اور کوتاہ فکر معاشرے میں آپ نے دریا کے بہاؤ کے الٹ تیرنے کی کوشش کی تو پھر اس کا ذمہ دار معاشرہ نہیں بلکہ آپ کی اوٹ پٹانگ قسم کی دانشوری اور زعم سچائی ہو گا لہذا اگر بے داغ طبعی موت کو گلے لگانے کی کوئی جستجو پال رکھی ہے تو پھر عقل و شعور سے ناتا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توڑ کر اپنے آپ کو معاشرتی عمومی سوچ کے تابع کرنے کے عادی بنا لیں اور ہر طرح کے زعم اور خوش فہمیوں و غلط فہمیوں سے باہر آ جائیں اور اگر خودکشی کا قصد فرما چکے ہیں تو پھر جیسا جی چاہے کریں۔

اگلی ساعت کا حال تو رب ہی جانے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تو کم از کم سو سال کی پلاننگ کر چکے ہیں وجہ صرف ایک کہ دنیا بھر کے ساحلوں پر موجود شہروں کو سمندر برد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ورنہ اتنی لمبی زندگی جینے کی کوئی اور وجہ تو نظر نہیں آتی، اب چونکہ کئی موٹیویشنل تقریروں اور سیلف ہیلپ کی کتابوں میں پڑھ چکے ہیں کہ لمبی زندگی جینے کے لئے کسی بڑے مقصد کا ہونا ضروری ہے تو عجلت میں کچھ نہ سوجا تو یہی ہتھے لگ گیا، بہرحال جینا چاہتے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو مقصد چاہیے تھا۔

ہم چونکہ ابھی جینا چاہتے ہیں اور وہ بھی عزت و وقار کے ساتھ اس لئے ہم کبھی بھی یہ سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ یہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ ہم قطعاً کبھی نہیں لکھیں گے کہ 50 سے زائد اسلامی ممالک اس وقت اس فانی دنیا کے نقشے پر موجود ہیں مگر کبھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ہماری طرح سر پر کفن باندھ کر دین کی سربلندی کے لئے سڑکوں پر نکلیں۔ کتنے کمزور ایمان مسلمان ہیں؟ انہوں نے کبھی کسی شہر کو بلاک کیا نہ ہی جلاؤ گھیراؤ کیا۔

بے شک میرے آقا کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لئے جینے کا کوئی حق نہیں مگر دل کرتا ہے پوچھ لوں کہ دل کو جلانے والے ایسے واقعات اسلام کے قلعے ہی میں کیوں ہوتے ہیں مگر نہیں میں ایسا نہیں کروں گا۔ ہم یہ بھی پوچھنے، کہنے کی جسارت نہیں کریں گے کہ بھائی پاکستان کے علاوہ کسی اور مسلم ملک میں کبھی اسلام کو خطرہ کیوں نہیں ہوا یا پھر ان کا ایمان مر چکا ہے جو کبھی انہوں نے ہماری طرح حق مسلمانی ادا نہیں کیا، ہم کبھی یہ سوال نہیں کریں گے کہ بھائی آپ تو نیک لوگ ہیں، صوم و صلوات کے پابند، تہجد گزار خدا کے بہت قریب اور یقینا جنت بھی آپ کی منتظر مگر ہم گنہگاروں کو پتا نہیں جنت میں جگہ ملنی ہے کہ نہیں مگر ہماری عارضی چند دنوں کی زندگی کو کیوں دوزخ بنانے پہ تلے ہو؟

ہم سے وعدہ لے لو ہم ایسا لکھیں گے نہ کہیں گے۔ کیونکہ ہم جینا چاہتے ہیں، پاکستانی بن کر مسلمان بن کر اس لئے تم جو سوچتے ہو تم جو کہتے ہو وہی ٹھیک ہے۔ ہم کرپشن کا سیاپا کر کے دل ہلکا کر لیں گے، جمہوریت پر تبرے برسا کر حق تنقید کا چسکا پورا کرلیں گے، حکومت کو گالیاں نکال کر فرسٹریشن نکال لیں گے، ہم ریلوے، واپڈا، پولیس اور دیگر اداروں کے خلاف زہر اگل کر ضمیر کی خلش کو مطمعن کر لیں گے مگر آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھیں گے کیوں کہ آپ طاقتور ہیں جابر ہیں اور ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم جابر عوام سے ٹکر نہیں لے سکتے سو ساری دلیلیں، عقلیں، زعم شعور عبث ہے۔ عزت و وقار اور جینے کی تمنا سلامت رہے یہ عقل و شعور تو آنی جانی شے ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).