شر پسندوں کے خلاف ریاست کارروائی کرے


دین ِ مبین کے تعلیمات بڑی واضح ہیں۔ اخوت، ہمدردی، بھائی چارہ، ایک دوسرے کا احترام، معاشرتی سطح پر عدل و انصاف۔ دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ اخلاقیاتِ عالی کی تعلیمات ہیں۔ عبادات بندے اور خدا کا براہ ِ راست معاملہ ہے۔ یہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ہی بتایا کہ اللہ ایک ہے اور ا سی کے سامنے جھکنا ہے۔ بخدا حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ قیامت تک کے انسانوں نے اب قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی ہدایت حاصل کرنی ہے۔ دین ِ اسلام ہر سطح پر، ہر طرح کی بدزبانی، بد کلامی اور انتہا پسندی و شر پسندی کی ممانعت کرتا ہے۔

گذشتہ دنوں ملک میں اس وقت ایک تکلیف دہ اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی جب سپریم کورٹ نے توہین ِ رسالت ﷺ کے کیس میں، مسیح خاتون آسیہ بی بی کو بری کر دیا۔ یہ وہی آسیہ بی بی ہیں، جن کے کیس پر پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو ان کے سرکاری محافظ پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری نے اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں قتل کر دیا تھا۔ کیونکہ سلمان تاثیر نے اس وقت جب کہ پیپلز پارٹی کی مرکز میں حکومت تھی، ملک میں توہین رسالت کے قانون کوتبدیل کرنے کی بات کرتے ہوئے اسے کالا قانون کہا تھا، جس پر کہ مذہبی حلقوں نے شدید احتجاج کیا اور سلمان تاثیر کے خلاف تقاریر کی تھیں۔ ان ہی تقاریر کے زیر اثر ممتاز قادری نے مذہبی جذبات میں آکر سلمان تاثیر کو قتل کر دیا تھا۔ بعد میں ریاست نے ریاستی قوانین کی رو سے مقدمہ چلا کر ممتاز قادری کو پھانسی دے دی تھی۔ ممتاز قادری کی پھانسی پر بھی مذہبی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔

ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ان دو واقعات سے پہلے، ”تحریک لبیک پاکستان“ کا کسی نے نام سنا تھا، نہ ہی مولوی خادم رضوی کا۔ ختم نبوت کے معاملے پر میرا ایمان اور جذبات بھی وہی ہیں جو دیگر مسلمانوں کے ہیں۔ لیکن مذہب کی آڑ میں ریاست کے مقابل ایک نئی قوت کے طور پر سامنے آنا اور اعلیٰ اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف جذبات کی رو میں بہہ کر قتل کے فتاویٰ جاری کرنا اصل میں سماج کے اندر انارکی پھیلانے کا سبب اور مولویانہ قوت کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ریاست ایک مدت سے، یعنی کوئی لگ بھگ چار عشروں سے مسلسل مختلف طرح کی انتہا پسندی سے نبرد آزما ہے۔ بلکہ پاک فوج تو کم و بیش 17 سال سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں عملی طور پر شریک بھی ہے۔ سماج بڑھتی ہوئی یا دانستہ کسی مقصد کی خاطر، بڑھائی گئی انتہا پسندی کی قیمت ادا کرتا چلا آرہا ہے۔ خبر نہیں مزید کتنا عرصہ معاشرہ اس دلدل میں پھنسا رہے گا۔

ریاستوں کی بقا کے لیے قوانین اور ادارے ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں، اسی طرح شہریوں کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ قانون کو بہر حال بروئے کار آنا ہی ہوتا ہے بہ صورت دیگر جس کے پاس آٹھ دس ہزار کا مسلح یا نیم مسلح لشکر ہو گا وہ خود کو ”دینی کمانڈر“ سمجھنے لگے گا۔ اس رویے کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلتا ہے۔ اس کی مثال افغانستان ہے۔ جہاں روس کی واپسی کے بعد ”دینی کمانڈروں“ نے مرکزی حکومت کو ترجیح دینے کے بجائے غیر اعلانیہ طور پراپنے اپنے علاقے بانٹ لیے تھے۔

نتیجے میں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور ابھی تک بھگت رہا ہے۔ آسیہ بی بی کو عدالت عظمیٰ نے رہائی کا حکم دیا تو تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں نے لاہور، فیض آباد سمیت ملک کے بڑی شہروں میں دھرنے دے دیے۔ ان دھرنوں میں ”عاشقان“ نے گدھے ریڑھی والوں سے کیلے بھی چھینے، گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی جلائے اور ”عاشقان“ کے قائدین نے فتاویٰ بھی جاری کیے۔ حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور ہوئے۔ پہلے پہل تو ”قائدین“ کے مطالبات آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور آخر کار پانچ چھ نکاتی ایک معاہدہ حکومت اور دھرنا مذاکرات کے درمیان ہو ہی گیا۔

معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ تحریک کے گرفتار کارکنان کو فوری رہا کیا جائے۔ جبکہ یہی قائدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں سے ہمارا یا ہماری تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ان کا آپ کی تحریک یا آپ سے تعلق ہی نہیں تو آپ ان کی گرفتاری پر اس قدر پریشان کیوں ہیں؟ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت نے اٹھارہ سو سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔ دو تین بڑے ”قائدین“ کے خلاف تو ایف آآئی آر درج کرنے کے بعد ”سیل“ بھی کر دی گئی۔

ریاست نے اب اگر قدم اٹھایا ہی ہے تو پھر ادھورا کام مت کرے۔ قانون و آئین کی حکمرانی کے لیے گاہے سختی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ احتجاج یا دھرنا ہر شہری کا حق ہے مگر ان دھرنوں، احتجاج یا مذہب کی آڑ میں دوسرے شہریوں کا راستہ روکنا، انھیں اذیت دینا، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا اور اسے اپنی ”فتح“ کا رنگ دینا، ریاست کے اندر ہی متوازی ریاست کے تصور کوابھارتا ہے۔ حکومت یا تو بالکل ہی اس معاملے کو نہ چھیڑے، لیکن اگر مقدمات درج کرنے شروع ہی کیے ہیں تو پھر ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے، اور ، ریاست و اداروں کے خلاف جذبات ابھارنے والوں سے بھی حساب برابر کرے تا کہ آئندہ کوئی بھی تنظیم، یا گروہ، چار چھ سو بندے لے کر ریاست پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی حیات کو تہ و بالا نہ کرے۔ ریاست میں قانون ہے اور گستاخی کرنے والے کے لیے سزا کا تعین بھی۔ کسی بھی ٹولے یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنا اصل میں جرم ہے جس کی سزا دیناریاست کی ذمہ داری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پر امن شہریوں کی آبرو، جان و مال کا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).