ناول ”ہے“ کیا ہے؟


ناول نگاری ”اتھرے“ گھوڑے پہ سواری کرنے کے مترادف ہے۔ انجان سوار کی اتھڑے گھوڑے پر سواری ایسے ہی ہوتی ہے جیسے اپنی جان جوکھم میں ڈالنا، کیوں کہ اسے یہ بیٹھتے ساتھ زمین پر پٹک دیتا ہے، پھر اللہ اور وہ جانے یا پھر بیچارے بے گناہ جسم کے اعضاء۔ ویسے تو انجان کیا، کسی بھی سوار کے لیے یہ ایک انتہائی خطرناک اور جان لیوا قسم کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ زندگی تو مگر ڈر سے آگے کی کسی چیز کا نام ہے۔ صرف بہادر، پختہ ایمان اور سچی لگن سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا جذبہ رکھنے والے ہی اس گھوڑے کی سواری کر پاتے ہیں۔ اور یوں اتھڑا گھوڑا ہمیشہ کے لیے اس سوار کا وفادار بن جاتا ہے۔

ناول نگار کو اچھا نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا محقق ہونا انتہائی ضروری ہے۔ کہانی، تحقیق اور اچھی نثر کا امتزاج ایک بڑے ناول کی وجہ بنتے ہیں۔ بڑا ناول وہ ہوتاہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے جان دار اور نیا ہو، علم میں اضافہ کرے اور پڑھنے والے کوآخر تک اپنے اندر جذب کیے رکھے بلکہ قاری کو اپنا حصہ بنا لے۔ ناول کا پیغام علاقائی ہونے کی بجائے آفاقی نوعیت کا ہونا چاہیے۔

عالمی سطح پر ناول نگاری میں بہت معیاری کام ہو چکا ہے۔ مغرب اور دوسری ترقی یافتہ اقوام اور خاص طور سے روسی ناول نگاروں نے اس میدان میں اپنا سکہ پوری دنیا میں منوایا ہے۔ اردو ناول نگاری کی بات کریں تو بڑے ناول انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں مثلاً کئی چاند تھے سرِ آسمان، آگ کا دریا، اداس نسلیں، بستی، راکھ، خدا کی بستی، غلام باغ اور جاگے ہیں خواب میں وغیرہ، اس لحاظ سے اس میدان میں اچھا ناول لکھ کر نام کمانے کا امکان باقی اصناف کی نسبت زیادہ ہے، اگر اللہ کی مدد شامل حال ہو تو۔

کسی ادب پارے پہ کوئی اس حد تک ہی بات کر سکتا ہے جتنی اس کی اپنی علمی اور تحقیقی حد ہو گی۔

”ہے“ ناول بابا جی فیاض محمود کی تیسری کتاب ہے۔ جسے دارالنوارد لاہورنے بڑی خوب صورتی سے اعلٰی کاغذ پر شائع کیا ہے۔ اس سے پہلے مصنف کی دو کتابیں ”انچلے راستے“ (شاعری) اور ”بوڑھی ہوا“ (نثر) چھپ چکی ہیں۔ مذکورہ ناول کا نام پڑھ کر ہی تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ ”ہے“ ہے کیا؟ اس لفظ کو ہم روزانہ کسی بھی تحریر میں بار بار پڑھتے ہیں جو عموماً فقروں کے اختتام کا اعلان کرتا ہے۔ تحریر میں بار بار آنے کی وجہ سے یہ لفظ ”ہے“ ایسے ہی ہے جیسے قدر کھو دیتا ہر روز کا آناجانا۔

مگر عنوان کی شکل میں اس کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر کتنی معنویت رکھتا ہے۔ ناول کا آغاز ایک دیہاتی لڑکے احمد کے شہر میں کالج ہوسٹل آنے سے، وہ شروع کے دنوں میں ہوسٹل کی نظم و ضبط والی زندگی کوگاؤں کی آزاد ی کے مقابلے میں بوجھ سمجھتاہے۔ چند دنوں بعد اس کی دوستی اپنے روم میٹ جنید اورکلاس فیلو جمیل سے ہوگئی۔ تینوں علم دوست تھے۔ تینوں نے ایک ریسٹورنٹ جا نا شروع کر دیا۔ جہاں کچھ صاحب علم لوگ محفل سجاتے تھے۔ جس میں ہر طرح کی گفتگو کی اجازت تھی مگر مہذب طریقے سے، صاحب علم لوگ سوالوں کے جوابات دیتے۔ ان کو سیکھنے کا بہت موقع ملتا۔ وہ خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے اور بعد میں خود بھی اس پر بحث کرتے۔ ایک دن وہ گفتگو سن رہے

تھے : ”تم دیکھو کاسترو اور چے کے ہاتھوں منظّم کی گئی مزدوروں کی نیم تربیّت یافتہ فوج نے کیوبا کی باقاعدہ تربیّت یافتہ فوج کو شکست سے دوچار کر دیا اور انقلاب برپا کر کے دکھا دیا۔ جب کہ نہ تو فیڈرل کاسترو کوئی تربیّت یافتہ جرنیل تھا اور نہ ہی ڈاکٹر چے گویرا، اور اس پر مستزاد یہ کہ کاسترو کی اس وقت عمر یہی کوئی تینتیس سال رہی ہوگی۔ اور اسی طرح چے بھی نوجوان تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی! کہ سرکاری فوج مزدوروں کی نیم تربیّت یافتہ فوج کے ہاتھوں شکست کھانے پر مجبور ہو گئی۔ “

کسی نے اس کا جواب دیا، ”ان دونوں کے پاس نظریہ تھا۔ جو انہوں نے مزدوروں کی فوج کو منتقل کیا۔ مزدور جانتے تھے کہ ہم کیوں لڑ رہے ہیں۔ خود کے لیے، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے۔ مگر سرکاری فوج۔ اس کے پاس تنخواہ لینے کے علاوہ کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ “

اس طرح ان دونوں کی دل چسپی کمیونزم میں بڑھنے لگی۔ ہوٹل میں ہونے والی کمیونزم پر بحثوں سے خاصے متاثر ہو نے لگے۔ یہاں ان کی دوستی میں ایک اور شخص طاہر کا اضافہ ہو گیا۔ جو اتھیسٹ تھا۔ اُس نے احمد کو پڑھنے کے لیے اس موضوع پر چارکتابیں دیں۔ جن میں کوالزم کی کتاب ”تاریخی مادیت“ ( ”جس کا لب لباب یہ ہے کہ کسی فرد کو معاشرے پر اپنے نظریات مسلّط کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جس سے معاشرہ کے اقتصادی مساویانہ ماحول کو نقصان پہنچے“ ) ، ژاں پال سارترکی ”نظریہ حیات“ ( ”وہ خدا کا قائل نہیں۔ وہ خدا پر بحث کو بھی خارج از بحث قرار دیتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں اس بات پر زور دیتا نظر آتا ہے کہ انسان کا اندر ہی ہر قسم کی معلومات کا ذخیرہ ہے“ ) ، ولیم جیمزکی کتاب کی ساری بحث کا منّبہ خدا ہے۔ ”وہ مختلف انداز سے بحث کر کے ثابت کرتا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ اس کے دلائل بہت مضبوط ہیں۔ جس کا شاید کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ وہ کائنات میں خرابی کی جڑ انسان کو گردانتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا حل بھی اسی کے پاس ہے“۔

ہیگل کا ”ارتقائی ترقی کا فلسفہ ہے۔ جس کے مطابق معاشرہ اپنی بدلتی ہوئی ضروریات کے تحت، خود کار نظام کی طرح ارتقائی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ جو کسی شخص یا مذہب کے روکنے سے رک نہیں سکتا اور نہ ہی روکا جا سکتا ہے“۔ اسی دوران میں عالمی ادب کے تین بڑے نا ول میکسم گورکی کا ”ماں“، دوستوفسکی کا ”جرم اور سزا“ اورہرمن ہیسے کا ناول ”سدھارتھ“ پر تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ سدھارتھ بڑا ناول ہے کیوں کہ اس میں ایک بھی جملہ غیر ضروری نہیں ہے۔ باقی دو ناول بے شک بڑے ہیں مگر سدھارتھ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ان کتب کے مطالعہ کے بعد احمد کمیونسٹ بن گیا۔ اس کی بنیادی وجہ اِس کے پاس ان مصنفوں کے سوالات کے جوابات کانہ ہونا تھا۔ دوسری طرف وہ اپنی پڑھائی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتاتھا۔ صوبے میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں بھی گولڈ میڈل لے

کرانٹر نیشنل ریلیشنز کالیکچراربن گیا۔ انٹر نیشنل ریلیشنز کی پڑھائی کے دوران جغرافیہ کی کتب کا تفصیل سے مطالعہ کیا مگر سب سے زیادہ لطف مقدمہ ابنِ خلدون سے لیا۔ یوں اسے پوری دنیا کے لوگوں، خطوں، رویوں، نفسیات، کلچر، ترقی کی وجوہات، عالمی طاقتوں کی کشمکش کے تناظر میں باقی دنیا پر ہونے والے اثرات اور مختلف تناظر میں جنم لینے والی تحریکوں وغیرہ کی جان کاری ہو گئی۔ استاد بننے کے بعد اب اس کے دل میں عملی طور پرکچھ کرنے کی جستجو ابھری۔ وہ مزدوروں کی تحریک میں شامل ہو گیا۔ آہستہ آہستہ وہ منازل طے کرتا ہوا مرکزی کونسل کا رکن بن گیا۔ مزوروں کو احتجاج کے لیے تیار کیا۔ شہر میں دنگا فساد شروع ہو گیا۔ لیڈروں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو یہ بھی گرفتارہوگیا۔ کئی

مہینے جب گھر والوں کو کوئی خبر نہ ملی تو باپ نے کسی دوست کے توسط سے جیل میں ملاقات کی مگر واپسی پر فوت ہوگیا۔ کئی سال بے گناہ نے جیل کاٹی۔ کوشش کے باوجود ضمانت نہیں ہو پائی۔ کئی سالوں بعد جب جیل سے رہا ہو کر گھر گیا تو باپ کی موت کا سن کراندر سے ٹوٹ گیا۔ بھائی کی شادی کرکے خودذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے پہاڑی علاقوں کی سیر پر اکیلا چلا گیا۔ وہا ں ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں علاقے کے لوگوں سے گھل مل گیا۔ علاقے کے ایک سکول میں بچوں کو پڑھانے لگا۔ اس عرصے کے دوران میں گذشتہ پہ غوروفکر کیا تو ان سوالات کے جوابات بھی اس کے ذہن میں آ گئے جن میں وہ کبھی الجھا ہوا تھا۔

ناول اپنے پلاٹ اور کہانی کے لحاظ سے مکمل ہے۔ بیانیہ بہت جاندار ہے۔ بالخصوص اتھیسٹ مصنفوں کو بڑی عمدگی سے جوابات دیے گئے ہیں، جوراقم کی رائے کے مطابق شاید اردو ادب میں کسی ناول نگار کی پہلی کاوش ہے۔ اگر ہم غور کریں تو مغرب کے بیانیہ کا کبھی کسی ناول نگار نے اس طرح جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ اس امر کی ضرورت بہت پہلے سے تھی مگر معلوم نہیں ایساکیوں نہیں کیا گیا۔ ناول میں مختلف موضوعات کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔

عالمی سیاست، معیشت، مزدوروں کے مسائل اور ان کا حل، تحریکوں، لیڈروں، جیسے چے گویرا، فیڈرل کاسترو، موزے تنگ وغیرہ، جغرافیہ اور طب (DNA ) ، انسان کی معاشرتی، سماجی کمزوریاں، نظامِ تعلیم اور استاد اور طالب علم کا رشتہ، عالمی طاقتوں کے عروج و زوال کی وجوہات پر بہت سیر حاصل بحث کئی گئی ہے۔ ناول کے پلاٹ کا کینوس عالمی سطح سے ہم کلام ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں عالمی سطح پر جانے مانے مصنفوں کے رب سے بیگانگی کے نظریات کو چیلنج کیا گیا ہے۔

ناول میں دو مقام پر ناول نگار کرداروں پر اتناحاوی ہو جاتا ہے کہ کردار بالکل گم ہوتے نظر آتے ہیں مثلاً جب براعظموں پر بات ہوتی ہے یا آخر میں جب مصنفوں کو جوابات یعنی رب کے ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ اگر ناول ان دو جگہوں سے تھوڑا edit ہوجاتاتو یہ ناول ہر لحاظ سے ایک شاہکار تخلیق ہو سکتی تھی مگر یہ ہماری رائے ہے، اس سے متفق ہو نا ضروری نہیں البتہ یہ ناول پڑھنے کی چیز ہے جو آپ کے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اللہ پر ایمان کو بھی تازہ اور مستحق کردیتا ہے۔

آپ کسی بھی اتھیسٹ کے سامنے اس ناول کے علم سے فاتح ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ”کائنات کی اتنی بڑی تخلیق، اور وہ بھی اتنی مکمل۔ کیا ایک بگ بینگ سے وجود میں آگئی۔ وہ بھی اس مفروضہ پر کہ گیسیں اوّل سے موجود تھیں۔ نہیں نہیں۔ انسان سے کہیں بھول چوک ہوئی ہے۔ انسان آج جو کہتا چلا آ رہا ہے۔ کہ سب کچھ خود بخود وجود میں آگیا۔ اس کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے“۔ ہماری رائے میں یہ ناول ہر ایک کے لیے ہے۔ علمائے دین اور طالب علموں خاص طور پر اُن طلباء کے لیے جو تقابل ادیان کے مباحث سے دل چسپی رکھتے ہیں۔ آخر میں اس شعر کے ساتھ اجازت۔

مجھے خبر ہے تری رفعتوں کی اے خالق!
مرے وجود کی پستی سے تو بعید نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).