امو ، پپا اور انا


امو کو دنیا سے گئے قریباً دو ماہ دس دن ہوچلے ہیں۔ یہی رخصتی خدانخواستہ امو کی جگہ پپا کی ہوئی ہوتی تو آج ہم کہہ رہے ہوتے کہ دیکھو پتہ ہی نہیں چلا اور عدت کی نصف مدت مکمل بھی ہوگئی لیکن خدا نے چونکہ مرد کو ان شرعی حدود و قیود سے آزاد رکھا ہے اس لئے پپا کے معمولات میں نہ کوئی فرق آیا اور نہ ہی وہ گھر کے کونے میں بیٹھے زندگی بھر کے ساتھی کے بچھڑنے کا غم منا رہے ہیں۔

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پپا کو امو کے جانے کا دکھ نہیں۔ ان دو ڈھائی ماہ میں سینکڑوں مرتبہ ان کو روتے بلکتے تڑپتے اور پھر دوبارہ جڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ جڑنے بکھرنے اور پھر بکھر جانے کیلئے جڑ جانے والے پپا کا ان ڈھائی ماہ میں ایک نیا روپ بھی دیکھا ہے۔ یہ وہ روپ ہے جو زندگی میں پہلے بھی بارہا دیکھا تھا لیکن ماہ و سال میں ایک آدھ بار۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب روز ہی پپا میں امو کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ سو کے اٹھو تو بستر تہہ کرنے پر اصرار کریں گے۔ لاکھ منع کرو کہ پپا ہم خود تہہ کریں گے، اچھا نہیں لگتا لیکن وہ کھیس ہاتھوں کی گرفت سے نکلنے ہی نہیں دیں گے۔ کھیس پر انکی یہ گرفت اس گرفت سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہوتی ہے جو اس آخری دن سی سی یو میں امو کو سہارا دیتے ہوئے تھی جب نرس نے مجھ سے کہا تھا کہ آنٹی کے بال بنا دیں، ایسے اچھی نہیں لگ رہیں اور میں نیم بیہوشی کے عالم میں ہی امو کے بال بنانے کیلئے پپا کو مدد کی خاطر سی سی یو میں لے گئی تھی اور وہ دونوں ہاتھوں سے امو کے ڈھلکتے سر کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ کس قدر کمزور محسوس ہورہے تھے وہ اس وقت ۔ لیکن یہ کمزوری اس لمحے ہی ختم ہوگئ جب سی سی یو کے دروازے پر کھڑے کسی شخص نے کہا کہ “بس آدھا گھنٹا آپ لوگ انتظار کریں، پھر ہم باڈی دے دیں گے”۔

اب روزانہ ہی جب پپا کو فون کرو تو کبھی وہ برتن دھو رہے ہوتے ہیں۔ پوچھو ناشتہ کیا تو جواب ملتا ہے کہ “نہیں ابھی عاشو سو رہی ہے تو میں نے کہا چلو میں برتن دھو دیتا ہوں”۔ کبھی فون کرو تو پیغام ملتا ہے کہ ابو ڈسٹنگ کر رہےہیں۔ امو کی زندگی میں وہ اور امو عموماً اپیہ (عاشو) کے اٹھنے سے پہلے ہی ناشتہ کر چکے ہوتے تھے۔

ہمیشہ صبح اٹھ کے کام پر جانے میں سستی کرنے والے پپا اب صبح صبح اپنے کارخانے چلے جاتے ہیں تاکہ اندھیرا پھیلنے سے پہلے گھر لوٹ سکیں کہ گھر میں عاشو اکیلی ہوتی ہے۔

ابو کا محبت، شفقت لٹاتا یہ روپ ہمارے لئے ہی مخصوص نہیں ہے۔ تین برس قبل جب امو پہلی بار بیمار ہوئیں تو ابو جیسے ایک دم وحشت زدہ سے ہوگئے۔ موت کو جو دہلیز پار کرنے میں تین برس لگے، شائد اس کی دستک پپا نے تین برس قبل ہی سن لی تھی جب ہی تو امو کی خدمت میں پپا نے بلا مبالغہ دن رات ایک کردیا۔ لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں واپڈا کا عملہ جس قدر مستعد تھا، پپا اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری سے لائٹ جاتے ہی امو کو ہاتھ کے پنکھے سے ہوا جھلنے کا فرض نبھاتے تھے۔ ہزار بار بولا کہ پپا جب ہم امو کے پاس بیٹھے ہی ہیں تو پنکھا بھی جھلیں گے نا، آپ سوجائیں لیکن مجال ہے جو کبھی ایک بار بھی ایسا ہوا ہو کہ لائٹ آنے سے پہلے وہ اپنے بستر پر دوبارہ لیٹے ہوں۔

ماہانہ آمدن کے حوالے سے بھی انکا ہدف ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ “یہ آرڈر پورا کرلوں تو تمہاری امی کی اس ماہ کی دوائوں کا خرچ نکل آئے گا”۔

میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے کیوں کہا جاتا ہے یہ سی سی یو کے باہر انتظار گاہ میں تڑپتے پپا کو دیکھ کے باآسانی سمجھ آگیا۔ ایک پہیہ نہیں رہے گا تو زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی اس خوف نے پپا کو نیم جان کرکے رکھ دیا تھا۔

دو دن ہوئے دونوں کی شادی کی سالگرہ گزری۔ امو کی زندگی میں دونوں نے کبھی یہ دن نہیں منایا ، اسی لئے کبھی کبھی نصف دن اور کبھی پورا دن گزرنے کے بعد ہی یاد آتا تھا کہ آج تو امو پپا کی ویڈنگ اینیورسری تھی۔ اس بار صبح آنکھ کھلتے ہی ذہن میں اترنے والا پہلا خیال یہی تھا کہ آج اگر امو ہوتیں تو شادی کو کتنے برس ہوچکے ہوتے۔ سارا دن چپکے چپکے آنسو پونچھتے گزر گیا۔ پھر شام ہوئی اور فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس پر پپا نے بھی تبصرہ کیا ہوا تھا۔ پوسٹ چھوٹی بہن کی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ جب کوئی اسکی تربیت کی تعریف کرتا ہے تو وہ امو کی بیٹی ہونے پر بے حد فخر محسوس کرتی ہے اور تبصروں میں پپا نے بھی کہا تھا کہ انہیں بھی امو کے ساتھ پر بے حد فخر ہے۔

بظاہر سادہ سا یہ تبصرہ پڑھ کے ایسا لگا جیسے کسی نے میرا دل مٹھی میں جکڑ لیا۔ پپا کو عملی طور پر امو کی خدمت کرتے ہوئے تو بارہا دیکھا تھا لیکن زبان سے اس چاہت اور لگائو کا اظہار شاذ و نادر ہی ہوا تھا۔ امو ہمیشہ کہتی تھیں کہ تمہارے پپا مجھے بیوقوف سمجھتےہیں۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے میری بات کو اہمیت نہیں دیتے۔

پپا کا تبصرہ پڑھنے کے بعد آنکھوں میں امڈتے آنسو چھپانے کیلئے نیوز فیڈ سکرول کرنا شروع کی تو اتفاقاً ایک سعودی عالم کا فتویٰ نظر سے گزرا جنہوں نے کہہ رکھا تھا کہ بیویوں کا دل رکھنے کیلئے اگر ان کے پکائے کھانے کی یا انکی خدمت کی جھوٹی تعریف کردیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔

سوچ رہی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں مردوں پر پہاڑ جیسی ذمہ داریاں لادتے ہوئے انہیں یہ احساس دلانا کیوں ضروری ہوتا ہے کہ تم ایک مرد ہو۔ مرد بنو۔ اور مرد بیچارہ مرد بنتے بنتے انسان نہیں رہتا۔ صرف مرد بن کے رہ جاتا ہے۔ جذبات کے اظہار سے عاری مرد۔ عورت کو تو جذباتی ہونے کا سرٹیفکٹ سماج بھی دیتا ہے اور مذہب بھی لیکن ساتھ ہی مردوں کو ملی سمجھداری کی سند کس کام کی جو جذبات

سے بھرے دل کو انا کی بلند فصیلوں میں قید کرکے ان کا دم گھونٹ دیتی ہے۔

وہ انا جو ساری زندگی ہر اس مقام پر آڑے آجاتی ہے جہاں جذبات لفظوں کے متقاضی ہوں اور آخر میں یہ جذبات اس وقت سامنے آتے ہیں جب انہیں محسوس کرنے کا اصل حقدار ہی باقی نہیں رہتا۔

جذبات کو زبانی اظہار تک محدود بنا کے انہیں کھوکھلا مت کیجیئے لیکن اس کے اظہار میں کنجوسی بھی مت کیجیئے ۔ امجد اسلام امجد کی نظم سے یہ اقتباس بار بار ذہن میں آرہا ہے۔ آپ بھی پڑھیئے

محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھاہے

کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے

اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو

نگاہوں سے ٹپکتی ہو لہو میں جگمگاتی ہو ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو

اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے

محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے

محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ”مجھ سے محبت ہے ”
کہو ”مجھ سے محبت ہے ”
تمہیں مجھ سے محبت ہے

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi