BBCShe#: بلوچستان کی خواتین صحافی: قوم کی روح کو بچانے کی ضرورت


کوئٹہ میں بی بی سی شی کی تقریب

کوئٹہ میں بی بی سی شی کا پروگرام

سبین ملک، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی، کوئٹہ کی طالبہ ہیں اور انھوں نے یہ بلاگ ’بی بی سی شی‘ BBCShe# کے لیے لکھا ہے۔

بلوچستان مہان نوازی اور کشادہ دلی کے لیے مشہور ہے۔ عشروں سے جاری عسکریت پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کا شکار یہ صوبہ ترقیاتی کاموں کے لحاظ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، اور اب بھی یہ شدید غربت، صحت کی ناقص سہولیات اور تعلیمی ڈھانچے کے فقدان جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ‘اگر آپ دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو صحافت اس کا فوری ہتھیار ہے۔’ اور یہ کہ ‘دنیا میں پرعزم عورت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں ہے۔’

لیکن بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں صورتِ حال گمبھیر ہے۔ اگر آپ میڈیا کو دیکھیں تو صرف چھ خواتین صحافی بطور فیلڈ رپورٹر کام کر رہی ہیں، جب کہ اکثریت اسائمنٹ ڈیسک یا پھر پروڈکشن میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

رپورٹر خوف کے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ انھیں صنفی تشدد، ہراسانی، معاشرے کے منفی رویے، کریئر کی راہ میں رکاوٹوں اور معاوضے میں صنفی خلیج جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

کوئٹہ کی خواتین رپورٹرز کہتی ہیں کہ ہراسانی ان کے اپنے اداروں کے اندر سے آتی ہے۔ ان کے لیے کام کے مواقع بےحد محدود ہیں۔ چھ میں سے چار رپورٹرز کو تعلیم اور صحت جیسے شعبے دیے گئے ہیں اور سیاست، معیشت اور سکیورٹی جیسے مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے چاہے وہ خود اس پر کام کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہوں۔

کوئٹہ میں خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ ان کی نوکری ان کے لیے دھبہ ہے اور معاشرے میں انھیں ان کی ملازمت کی وجہ سے عام طور پر ‘بری عورت’ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں اکثر یہ پیشہ ترک کر دیتی ہیں اور مشہور اور کامیاب صحافی بننے کا خواب ترک کر دیتی ہیں۔

بعض اوقات اس کی وجہ خاندان کا دباؤ ہوتا ہے، لیکن اکثر اوقات معاشرے کی طرف سے ملازم پیشہ خواتین، خاص طور پر صحافی خواتین، کا منفی تاثر انھیں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اپنا کریئر بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سماجی نظام اور ثقافتی اقدار بجائے ملازمت پیشہ خواتین کا تحفظ کرنے کے الٹا ان پر مزید دباؤ ڈالتے ہیں۔

میڈیا میں انھیں خواتین کے آگے بڑھنے کا امکان ہوتا ہے جو اچھی شکل و صورت کی مالک ہوں۔ معمولی شکل بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں۔

خوش شکل خواتین کو بڑی آسانی سے سکرین والے رول مل جاتے ہیں جب کہ جو خواتین اتنی خوبرو نہ ہوں، انھیں سکرین پر نہیں آنے دیا جاتا چاہے وہ کتنی باصلاحیت کیوں نہ ہوں۔

بلوچستان کی صحافی خواتین کو معاوضے کی صنفی خلیج کا بھی سامنا ہے۔ انھیں عام طور پر مردوں سے کم تنخواہ ملتی ہے۔ صوبے کی صحافی خواتین اس تعصب اور ذہنی تناؤ پر مبنی حالاتِ کار کی وجہ سے شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ کام کے اعتراف کے فقدان، طویل اوقاتِ کار، پدرسری رویے اور معاشرے میں مسلسل خراب حالات کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔

اس صورتِ حال کے باوجود درجنوں نوجوان گریجویٹ خواتین ان رکاوٹوں کو عبور کرنا چاہتی ہیں اور جرائم اور سیاست جیسے میدانوں میں رپورٹنگ کرنا چاہتی ہیں، تاہم یہ حد عبور کرنا آسان نہیں۔ دوسری طرف خواتین کے محفوظ ماحول بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، نہ دفاتر کے اندر اور نہ باہر۔ ان تمام چیلنجوں کے باوجود درجنوں طالبات صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اسے اپنا کریئر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ انھیں مشکلات کا احساس ہے، اس کے باوجود وہ اس میدان میں اپنی راہ بنانا چاہتی ہیں۔

معاشرے نے ‘اچھی’ خواتین کا جو سانچہ بنا رکھا ہے، اسے توڑنا ہو گا۔ مستقبل کو ماضی کا یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر یکساں مواقع ملیں تو بلوچستان کی خواتین صحافی صوبے کی لاکھوں بےآواز اور محروم خواتین کی آواز بن سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp