آسیہ مسیح کے وکیل پر لعن طعن کیوں؟



آسیہ مسیح کے وکیل سیف الملوک نے اپنی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر اقوام متحدہ سے پناہ کی درخواست کی، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے آسیہ مسیح کے وکیل سیف الملوک کو پناہ دی اور اب وہ ہالینڈ میں مقیم ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ مسیح کو بری کئے جانے کے بعد ملک میں جو حالات کشیدہ ہوئے، اہل مذہب کی طرف سے بھرپور ردعمل آیا، ملک بھر میں جلاو گھیراو کے بھی متعدد واقعات سامنے آئےاورملک کے مذہبی طبقے کی طرف سے آسیہ مسیح کیس کا سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔اسی طرح ایک طبقے کی طرف سے آسیہ مسیح کے وکیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، سوشل میڈیا پر آسیہ کے وکیل پر لعن طعن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یاد رہے کسی بھی ملزم یا مجرم سے یہ حق نہیں چھینا جا سکتا کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکے یا تمام قانونی حقوق اس سے چھین لئے جائیں، یہ قانونی طور پر بھی غلط ہوگا اور شرعی طورپربھی۔ اسی لئے دوران کیس آسیہ مسیح کو پورا حق دیا گیا کہ وہ اپنی صفائی بیان کرے اور آزادانہ طورپر اپنا کیس لڑے، سو آسیہ مسیح اور اس کے خاندان نے ایسا ہی کیا اور قانون میں جو جو گنجائش موجود تھی یعنی ٹرائل کورٹ کے بعد ہائی سے اپیل اور ہائی کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے اپیل۔آسیہ مسیح کے خاندان والوں نے اسے بے گناہ ثابت کرنے کیلئے اپنے تمام قانونی حقوق پورے کئے، جس پر اس کے خاندان والوں کو کوئی شکوہ نہیں ہے۔ بطور مسلمان ہمیں بھی خوش ہونا چاہئے کہ ہم نے ایک غیرمسلم کو اس کے تمام قانونی حقوق فراہم کئے ہیں ۔اس کے بعد کل کلاں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک مسلمان ملک کی عدالت میں غیر مسلم کو اپنی صفائی کا کوئی حق نہیں دیا گیا، انہی قانونی حقوق میں وکیل بھی لازمی جزو ہے، وکیل کے بغیر اعلی عدالتوں میں کیس لڑنا انتہائی مشکل ہے پھر ایک کم پڑھا لکھا اورعام شہری عدالت اور قانون کی پیچیدگیوں سے واقفیت نہیں رکھتا، جس طرح سے مدعی کو وکیل رکھنے کا حق حاصل ہے اسی طرح مدعاعلیہ کو بھی پوراحق حاصل ہے، دنیا کی کوئی بھی طاقت اس سے یہ حق چین نہیں سکتی نہ ہی مذہب معاشروں میں ایسا ہوتا ہے پھر ایک مسلمان ملک میں تو اس کا تصور بھی محال ہے۔
اس سارے پس منظر کے بعد جو لوگ سوشل میڈیا پر آسیہ مسیح کے وکیل سیف الملوک کو لعن طعن کررہے ہیں وہ اسلام کی ترجمانی نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنی جہالت سے اسلام کے شفاف نظام عدل کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایسے اسلام پسندوں کی خدمت میں تارخ اسلام کا صرف ایک واقعہ پیش ہے ۔
ایک دفعہ حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی مصر کے بیٹے محمد بن عمرو نے ایک مصری کو کوڑے مارے اور کہا کہ میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ ایک عرصہ کے بعد جب مصری قید سے رہا ہوا تو مدینہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے محمد بن عمرو کو مدینہ بلوا بھیجا۔ جب دونوں مدینہ پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مظلوم مصری کو بلوایا اور اس کے ہاتھ میں کوڑا دے کر فرمایا کہ اسے پکڑو اور بڑوں کی اولاد سے اپنا بدلہ لو۔ مصری نے کوڑا لیا اور بدلہ لینا شروع کردیا۔ وہ کوڑے مار رہا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر کوڑے پر کہتے کہ بڑے کی اولاد کو مارو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصری کو فرمایا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مارو کیونکہ بیٹا تجھے ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔ اس نے کہا! یا امیرالمومنین جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا، اب میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں مارتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تو ان کو بھی مارتا تو ہم تمہیں نہ روکتے۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غضبناک لہجے میں فرمایا: اے عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کردیا ہے جبکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا ہے۔(کنزالعمال، 6: 355)
اس سے اندازہ لگائیں کہ ایک غیر مسلم جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کی عدالت میں مسلمان گورنر کے بیٹے کی شکایت لیکر جاتا ہے تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نہ صرف یہ کہ اس کی بات سنتے ہیں بلکہ فوری طور پرانصاف کی فراہمی یقینی بناتے ہیں، تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ غیر مسلم اس وقعہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیتا ہے، اس طرح کے واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے لیکن آج جو ہم اسلام کے نام پر کررہے ہیں اس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔یہ مسلمانوں کے شفاف نظام عدل کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).