شہر بند؟ کوئی گاڑی نئیں چلے گی؟


آج صبح صبح آنکھ کھلی تو ٹویٹر پر ایک نامور اینکر صاحب یہ مژدہ سنا رہے تھے کہ ملتان میں ہمارے ہر دلعزیز صدر مملکت کی آمد پر شہر میں میٹرو سروس بند کر دی گئی۔

اگرچہ خبر کی تفصیلی معلومات موجود نہیں تھیں کہ میٹرو سروس خود انتظامیہ نے بند کی ہے یا یہ کہ صدر صاحب کے پرانے تجربے کی بنیاد پر بند کی گئی ہے کہ جس کا ذکر جنابِ صدر چند روز پہلے قہقہے لگا لگا کے کر رہے تھے کہ شہر بند کرا دئے گئے، کوئی گاڑی نہیں چلنے دی جاۓ گی۔ قطعِ نظر اس کے، یہ خبر پڑھ کر گویا طبیعت شاد ہو گئی، تنِ مردہ میں جیسے جان پڑ گئی ہو اور ایک فرحت انگیز احساس روح و جسم میں رچ بس گیا ہو۔ میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا کہ تمام وہ لوگ جنہوں نے یہ خبر پڑھی، اسی پُر کیف کیفیت سے گزر رہے ہیں یا نہیں لیکن گمان غالب ہے کہ زیادہ تر اسی طرح کے تجربے سے گزر رہے ہوں گے۔

ہمارے یہ تینوں زعماء، یعنی وزیر اعظم عمران خان، پیشواۓ زماں جناب ڈاکٹر طاہر القادری اور خود ہمارے صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی جہاں اپنے اپنے شعبوں میں اعلی مقام رکھتے ہیں وہیں شہر بند کرانے اور شہروں میں “کوئی بھی گاڑی نہ چلنے دینے” پر بھی کمال رکھتے ہیں۔ قوم نے نہ صرف ان کے اپنے شعبوں میں ان کے کارہاۓ نمایاں کی بھرپور داد اور معاوضہ دینے کی کوشش کی ہے ،اگرچہ ایسی خدمات جو دل و جاں لگا کر پیش کی جائیں اُن کا معاوضہ ادا کرنا اس غریب قوم کے بس کا روگ نہیں ہے، بلکہ قوم نے ان کی شخصیت کے اِس پہلو کو بھی بہت سراہا ہے کہ وہ بغیر کسی داد و تحسین کی تمنا کے اور بِنا کسی مالی لالچ و غرض و غایت کے، شہر بند کرانے کے عمل میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں قوم کی زیادہ محبتوں کے حقدار ہمیشہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری ہی ٹھہرے کہ موصوف اس کارِ خیر کے لئے سات سمندر پار سے ایک لمبا سفر طے کر کے، اپنی خون پسینے کی کمائی سے، سفر کے کثیر اخراجات ادا کر کے اور اپنے بال بچوں کو دور دیس میں چھوڑ کے پاکستان تشریف لاتے ہیں۔ اور پھر شہر بند کرانے کے بعد، کچھ دن تک حتی المقدور گاڑیاں بھی نہ چلنے دینے کے بعد واپس تشریف لے جاتے ہیں۔ اُن کی مزید نوازش یہ ہے کہ وہ واپس کینیڈا اپنے اہل و عیال کے پاس جانے سے پہلے اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ اب شہر پوری طرح کھل گیا ہے، زندگی پوری آب و تاب سے رواں دواں ہے اور جو گاڑیاں رکوائی گئی تھیں وہ چل پڑی ہیں۔

کینیڈا واپس جا کے، ڈاکٹر صاحب اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور شہر بند کرانے کی طرف سے ایسے غافل ہو جاتے ہیں کہ جیسے یہ کام اُن کو آتا ہی نہ ہو۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اُن کے اپنے دیس یعنی کینیڈا میں شہر بند کرانے کی سہولت دستیاب نہیں ہے اس لئے ڈاکٹر صاحب اس کام کے لئے پاکستان آنے کا انتظار کرتے ہیں اور ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی فاسق جابر یزیدی ٹولے کی حکومت آئے کیوں کہ سر پر کفن باندھنے کا جو مزا ایسی حکومت کے سامنے آتا ہے وہ کسی ایسی حکومت کے سامنے نہیں آتا جو ریاست مدینہ کے تقلید میں قائم کی گئی ہو۔

ادھر ہمارے ہاں، قوم ڈاکٹر و علامہ صاحب کی منتظر رہتی ہے کہ کب وہ تشریف لائیں اور یہ تماشا ہو۔ اشتیاق کا یہ عالم ہے کہ اُن کا جہاز جونہی لندن کے ائرپورٹ سے فضا میں بلند ہوتا ہے، اُن کے موافق اور مخالف لوگ، ٹی وی چینلز کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں، دفاتر اور بازار تقریباً بند کر دئیے جاتے ہیں اور بیبیاں طرح طرح کے پکوان تیار کرتی ہیں کہ اگلے چند دن تک ملک میں ایک تہوار کا سا سماں ہوتا ہے جس کی پل پل کی اطلاع ہمارے چینلز دے رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی بیشتر نامور صحافی آنے والے لمحات کی پیشگی منظر کشی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ میلے کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ جس کا احساس صرف اُسی وقت ہوتا ہے کہ جب اِن تین حضرات میں سے ایک شہر اور ٹرانسپورٹ بند کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

یہی وہ احساس ہے کہ جس نے ٹویٹر پر میٹرو سروس بند ہونے کی خبر پڑھ کر خوشی کی ایک لہر شہریوں کے جسم و جوان میں دوڑا دی کہ کہ اب تہوار کا سا سماں ہو گا، ہر طرف چھٹی کا ماحول ہو گا، لوگ اپنے ٹی وی کی سکرین کا سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوں گے اور اب وہ مناظر پھر دیکھنے کو ملیں گے کہ ڈاکٹر عارف علوی صاحب اپنی بڑی اور مہنگی والی گاڑی میں تن تنہا گھوم رہے ہوں گے، شہر میں ہُو کا عالم ہو گا اور اس سنسان ماحول میں کوئی صحافی جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ شہر ڈاکٹر صاحب نے پہلے ہی بند کرا رکھا ہے، ڈاکٹر صاحب سے سوال کرے گا کہ کیا شہر بند رہے گا۔ تو ڈاکٹر صاحب ایک اداۓ دلبرانہ سے اطلاع دیں گے کہ ہاں شہر بند رہے گا اور کوئی گاڑی نہیں چلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).