ایران کی علامہ اقبال سے شناسائی میں تاخیر کیوں ہوئی ؟


قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برسوں سے ایران ہمارا اس طرح بڑا بھائی تھا جیسا کہ آج کل ہم سعودی عرب کے چھوٹے بھائی ہیں ، ان دونوں نہ اسلام آباد کاوجود تھا نہ ہی فیصل مسجد کا ، جب اسلام آباد وجود میں آگیا تو اسے راولپنڈی سے ملانے والی مری روڈ کانام خیابان محمد رضا شاہ رکھا گیا تھا ۔ 1950 کی بات ہے جب شہنشاہ ایران نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا ، اس زمانے کی رواج کے مطابق ہزاروں لوگ کراچی میں شاہ کی استقبال کو امڈ آئے تھے –
ایران اور ہندوستان کے روابط اس سے قبل کی تاریخ میں بھی ہمیشہ بڑے تابناک رہے ۔ خصوصا علمی اور ادبی تعلقات تو انتہائی شاندار تھے ۔ ایک دور ایسا بھی گزراہے جب فارسی شعراء کی تعداد ایران سے ہندوستان میں زیادہ تھی ۔ بالخصوص صفوی سلطنت کے عہد میں تو صورتحال یہ تھی کہ تذکرہ نویسوں کے بقول دوسرے فنون کو تو چھوڑیں ، صرف ان شعراء کی تعداد 745 ہیں جو شاہ اسماعیل اول کے دور کے آغاز سے شاہ حسین کے دور کے اختتام تک کے تقریبا اڑھائی صدی کے مدت میں ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان میں مقیم ہوگیے تھے ۔

لیکن اس کے بعد ایران میں ہندو پاک اور یہاں کی علم وادب سے متعلق اجنبیت اور لاعلمی کے تاریک ساے چھاجاتے ہیں ۔ علامہ اقبال بلاشبہ اردو اور فارسی زبانوں کے ایک ایسے بے مثال شاعر تھے جن کی مستقبل کی تاریخ میں قدکاٹھ کا اندازہ ان کی زندگی میں ہوگیاتھا ان کی زندگی میں ہی افغانستان کے مجلات میںان کے اردو نظموں کے پشتو ترجمے اور فارسی غزلیں شائع ہورہی تھی لیکن جس ایران کی لغت کو اقبال نے اپنے کلام کا زبان بنا یاتھا وہاں علامہ اقبال کے بجاے اس ٹیگور کی پزیرائی ہورہی تھی جنہوں نے فارسی زبان میں کبھی ایک قطعہ بھی نہیں لکھا ۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے 1932 میں اپنا سترہواں سالگرہ ایران میں منایا اور اس موقع پر ان کی آمد کو ” بازگشت گل بہ گلستان ” کہہ کر خوش آمدید کہا گیا – اس کے تین سال بعد جب ایران میں ابوالقاسم فردوسی کے عظیم الشان مزار کی افتتاحی تقریب منعقد ہورہی تھی جس میں دنیا بھر سے مستشرقین اور ایران شناس مدعو تھے اس تقریب میں ایک بار پھر ٹیگور کو دعوت ملی اور وہ دوبارہ سرکاری دعوت پر ایران گیے لیکن علامہ اقبال کو کبھی کوئی ایسی دعوت ملی اور نہ ہی ایران کے سفر کا موقع ۔

علامہ اقبال کے بارے میں ایران کے اندر جو سب سے پہلا تفصیلی تعارفی مضمون شائع ہوا وہ علامہ کے انتقال کے تقریبا دس سال بعد مجتبی مینوی کے قلم سے مجلہ ‘ یغما ‘ میں چھپا ( 1956 میں صوفی غلام مصطفی تبسم نے اس مضمون کا اردو ترجمہ شائع کرایا ) مینوی کا مضمون چونکہ میگزین میں شائع ہواتھا اس لیے ظاہر ہے کہ بعد میں نایاب ہوگیا اور جب اسے کتابی صورت میں شائع کیاگیا تو کتاب کے ناشر عبدالکریم جربزہ دار سے کتابت کی ایک فاش غلطی یہ سرزد ہوگئی کہ انہوں نے اس مضمون کی لکھنے کی تاریخ 1327 ہجری شمسی کے بجاے 1347 ہجری شمسی لکھی ہے یعنی 1947 کے جگہ 1969 ۔ ایران میں اگرچہ یہ مضمون اقبال سے متعلق ایک بنیادی حوالہ ہے تاہم اس مضمون کے فاضل مضمون نگار کا فہم اقبال خود بھی اس حد تک ناقص تھا کہ علامہ مرحوم کے مشہور قطعہ ” سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است ” کو انہوں نے اس مفہوم میں لیا کہ گویا یہ قطعہ حضرت اقبال نے امت اسلامیہ کو توحید ونبوت کی پرچم تلے متحد بنانے کے لیے لکھا تھا ، اس میں شک نہیں کہ عالم اسلام کی وحدت اقبال کا ایک مستقل نظریہ تھا لیکن مذکورہ بالا قطعے کا پس منظر مسلم امت کو جوڑنے کی نہیں بلکہ ہندوستان کو توڑنے کا تصور تھا ۔

اس مضمون میں استاد مجتبی مینوی لکھتے ہیں کہ میں نے کسی دن اپنے ایک ادیب دوست سے علامہ اقبال کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ” جی جی میں اقبال کو جانتاہوں ، وہی جس نے راحۃ الصدور نامی کتاب کو شائع کیا ہے ” یہ صاحب گویا کہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اقبال کو ہی علامہ اقبال سمجھ بیٹھے تھے ۔

علامہ اقبال سے ایران میں بے خبری کی حالت یہ تھی کہ علامہ علی اکبر دہخدا جنہوں نے پچاس جلدوں پر محیط ‘ لغت نامہ دہخدا’ لکھا ہے ، جو کہ صرف لغات ہی نہیں بلکہ ایک انسائیکلو پیڈیاہے ۔ علامہ دہخدا نے کہاتھا کہ میں نے عمرعزیز کے تیس سال اس کتاب کی لکھنے میں لگادیے ، ان تیس سالوں میں میں نے صرف تین دن چھٹی کی ، ایک دن والدہ کی انتقال کی وجہ سے اور دودن سخت بیماری کے باعث ، اس لغت نامہ میں ہر لغت کی وضاحت کے لیے کلاسیک ، فوکلوریک اور معاصر شعراء کے کلام سے استشہاد کیا گیا ہے اور بلاشبہ ہزاروں اشعار کو بطور سند پیش کیاگیاہے ۔ لغت نامہ دہخدا جو پہلی مرتبہ 1940 میں شائع ہواتھا مگر پوری کتاب میں کہیں ایک جگہ بھی علامہ اقبال کی کسی شعر کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔
اب ذرا آگے بڑھتے ہیں ، 1971 میں ڈاکٹر علی شریعتی نے فیصلہ کیا کہ اقبال کی روح سے آشنائی کے لیے ایک علمی سیمینار کا انعقاد کیاجاے ۔ شریعتی کا کہناہے کہ جب یہ خبر عام ہوئی ( اس واقعے سے آپ مذہبی طبقے کے اوپر ہمیشہ سے تحقیق کے بجاے سطحی جزباتیت کی غلبے کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں ) تو مجھے علماء کے مقدس لباس میں ملبوس ایک مذہبی عالم کہنے لگے کہ علامہ اقبال جیسے اہل بیت کے دشمن اور زندیق کو آپ کیوں اتنا آسمان پر چڑھارہے ہیں ۔ ان کے اشعار میں تو کئی مرتبہ انہوں نے ہمارے امام جعفر صادق کے شان میں توہین اور گستاخی کا ارتکاب کیاہے
جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن
شریعتی کہتے ہیں کہ اس بات سے میں خود بھی بڑا متعجب ہوا کہ آخر اقبال ایسا کیسے کہہ سکتے تھے ۔ گو کہ اس سے پہلے شریعتی خود بھی اس الزام کو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے اور انہوں نے اس الزام کے باوجود بھی اقبال کی دفاع کا کوشش کرتے ہوے کہاتھا کہ ہمیں کسی کو صرف ہمارے ہی بناے ہوے فریم میں فٹ آنے کی خواہش نہیں کرنی چاہیے ۔ بہر حال علی شریعتی کہتے ہیں کہ میں نے تحقیق کی تو سید غلام رضا سعیدی نے بتایا کہ علامہ اقبال کے یہ اشعار امام جعفر صادق کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ میر جعفر اور میرصادق ہندوستان کے دومختلف شخصیات تھے اور انہوں جنگ آزادی میں انگریزوں کے ساتھ وفاداری میں اپنے ہم وطن لوگوں سے غدر کا ارتکاب کیاتھا ۔

علامہ اقبال کے ساتھ ایران کی طویل عرصے تک یہ بے اعتنائی ادبی تاریخ کا ایک عجیب واقعہ ہے لیکن اوپر شاہ ایران کے پاکستان کی جس دورے کا ذکر کیاگیا اسی دورے میں جب کراچی میں شاہ کے اعزاز میں سرود کی محفل آراستہ ہوئی تو انہیں علامہ اقبال کے ہی زبور عجم کی ایک غزل ‘ ای جوانان عجم جان من وجان شما ‘ سنائی گئی- اس غزل کا پہلا مصرع ہے ‘ چون چراغ لالہ سوزم درخیابان شما ‘ –

چون چراغ لالہ سوزم درخیابان شما
ای جوانان عجم جان من وجان شما
( میں تمہارے باغ کی راستے پر لالہ کے پھول کے چراغ کی طرح جل رہاہوں ، اے عجم کے جوانو ! مجھے اپنی جان کی قسم ، مجھے تمہاری جان کی قسم )
اقبال کے مخاطب عجم تھے – ترک ، افغان ، اہل فارس ، ہندی اور اردو بولنے والے ، علامہ اقبال شاکی تھے کہ اقوام عرب اس کی آہنگ سے بے خبر ہیں ، انہوں نے کہاتھا کہ میری نوا سے عجم میں تو شوق کی پرانی آگ بھڑک اٹھی لیکن عرب میرے نغمے سے ابھی تک لاعلم ہیں ۔
نوای من بہ عجم آتش کہن افروخت
عرب زنغمہ شوقم ہنوز بے خبر است
لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا ، جس دن کراچی میں شاہ ایران کی شادمانی خاطر کے لیے اقبال کی نظم ‘ چون چراغ لالہ سوزم درخیابان شما ‘ گائی جارہی تھی اس وقت تک پورے ایران میں کوئی ایک بھی ‘ خیابان اقبال ‘ موجود نہیں تھا ، کہیں بھی اس چراغ لالہ کی روشنی اور سینہ سوزی کا پتہ نہیں تھا اور جن جوانان عجم کو اس نظم میں مخاطب بنایاگیا تھا ان کا ایک بڑا حصہ تشکیل دینے والا فارس ابھی تک اس صدا کیلیے گوش برآواز نہیں ہواتھا ۔ لیکن اقبال آگاہ تھے ، مرد خود آگاہ اور مرد غیر آگاہ ، آج ایران کا کوئی ایسا بڑا شہر نہیں ہے جس میں کوئی بڑا شاہراہ علامہ اقبال کے نام سے منسوب کرکے ‘ خیابان اقبال ‘ کے نام سے نہ ہو ۔

( نوٹ : مضمون کی تیاری میں اکثر واقعات صرف سن وار اور ماہ و دن کی قید کے بغیر ملے ۔ ہجری شمسی اور عیسوی تقویم کی فرق کے وجہ سے واقعات کی تاریخ میں معمولی فروگزاشت کے بغیر چارہ نہیں ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).