علامہ اقبال کا تصور تعلیم


علامہ اقبال نے اپنی تحریروں، خطابات اور شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں علم کے حصول کی تحریک بیدار کی۔ ان میں علم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ علامہ اقبال نے علم حاصل کرنے کے مختلف زاویوں اور اندازِ تعلیم کو بھی پیش کیا۔ علم حاصل کرنا بلاشبہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔ علم حاصل کرنے کی کوئی آخری عمر نہیں ہے۔ انسان آخری دم تک طفل مکتب ہوتا ہے اگرچہ وہ دنیا کے کسی بھی عہدے پر فائز رہ چکا ہو۔ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی علم کا راستہ مسدود نہیں ہوتا۔ علم ایک بحرِ بیکراں ہے۔ اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

علم کی بدولت قوموں نے عروج پایا۔ علم نے آدمیت کو انسانیت کے رنگ میں ڈھالاورنہ آدمی کھانے پینے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنا عروج سمجھتا تھا۔ زندگی گزارنے کا مقصد نفسانی خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہ تھا۔ انسان تہذیب وثقافت سے عاری تھا۔ نیکی اور بدی کی تمیز سے نابلد تھا۔ علم نے تہذیب سکھائی۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی۔ علم کا مقصد سمجھ بوجھ اور فہم و فراست میں پاکی حاصل کرنا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :

علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد

بے شک دنیا کی ترقی کا دارو مدار علم پر ہے۔ علم ہی دنیا اور آخرت میں عزت کا باعث بنتا ہے۔ اسی لیے مسلمان جب تک علم سے وابستہ رہے۔ دنیا میں نمایاں رہے۔ ایجادات میں پیش پیش رہے۔ تسخیرِ کائنات میں آگے رہے۔ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن جب مسلمانوں نے علم کے دامن سے اپنے آپ کو آزاد کیا اور میدانِ علم سے بھاگے تو ہر میدان میں پسپا ہوئے۔ اسی بات پر حیرت اور افسوس کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اظہار کیا:

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

علامہ اقبال نے اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پیارے حبیب ﷺ پر وحی کا نزول اقراء سے کیا تھا یعنی پڑھیے۔ لہٰذا پڑھنا لکھنا تو مسلمان کی گھٹی میں پڑاہوا ہونا چاہیے۔ علامہ اقبا ل نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھیں، ان میں آداب و اخلاق کے ساتھ علم کی طرف بھی راغب کیا ہے۔ علامہ اقبال نے بچوں میں ابتداء ہی سے علم کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور دعائیہ نظم ”لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنا میری“ میں علم کے متعلق ایک دعا لکھتے ہیں :

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

یعنی جب بچہ اپنے تعلیمی ادارے میں اس نظم کو پڑھے گا تو یقیناًاس کے دل میں علم کی محبت بڑھے گی اور وہ جوں جوں با شعور ہوتا جائے گا علم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھتا جائے گا۔ علم کا یہی جذبہ علامہ اقبال قوم کے ہر فرد میں چاہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے متعدد بارمسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان تعلیمی میدان میں پیچھے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ترقی بھی نہ کرسکے۔ علم کو چھوڑ کر عیش پرستی میں پڑ گئے۔ دولت کے حصول میں لگ گئے۔ علم کو چھوڑ کر عیش و عشرت میں لگ گئے۔ علامہ اقبال ایسے علم کے حصول سے منع کرتے ہیں جوجسمانی لذتوں اور آسائشوں تک محدود ہو۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جَو

علامہ اقبال ایسے علم کے حصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو مسلمانوں کی روحانی صلاحیتوں کو بیدا کرے۔ درحقیقت علم میں دولت کے ساتھ ساتھ قدرت اور لذت بھی ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :

علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتانہیں اپنا سراغ

یعنی علم میں دولت حاصل کرنے، اشیاء پر قابو پانے کی طاقت پیدا کرنے اور کئی قسم کی دماغی اور جسمانی ذائقوں اور لذتوں کے وصف موجو د ہیں۔ اگر بندہ علم حاصل کرنے لگ جائے تو اسے مشاہداتِ قدرت کی لذتیں بھی حاصل ہوجائیں گی اور وہ ان کو تسخیر کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔ علامہ اقبال تعلیم کا تصور پیش کرتے ہوئے اس بات کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ مظاہرِ قدرت میں تسخیر کرتے وقت خیال یہ رہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار نہ کردے۔

ان مشاہدات کے ذریعے وہ اللہ کے قریب ہو، ایسا نہ ہوکہ وہ قدرتِ باری تعالیٰ کا منکر ہوجائے۔ علامہ اقبال ایسی تعلیم کے حصول سے منع کرتے ہیں جو مسلمان کو اپنے دین سے بیگانہ کردے اور وجودِ باری تعالیٰ کے انکار پر آمادہ کرے۔ یہاں تک کہ ایسی تعلیم جس میں اللہ رب العزت کے وجود یا اس کی ذات و صفات کا انکار ہو، علامہ اقبال نے اس تعلیم کو فتنہ کہتے ہیں۔

علامہ اقبال مغربی نظامِ تعلیم سے بہت نالاں تھے کیونکہ مغربی نظام تعلیم مادیت پرستی، عقل پرستی اور بے دینی و الحاد کا سبق دیتی ہے۔ اسی نظام تعلیم کی حقیقت کو علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اس انداز سے پیش کیاکہ:

اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

یعنی عیسائیوں نے ایسا تعلیمی نظام رائج کیا اور ایسی کتابیں نصاب کا حصہ بنائیں جن کو پڑھ کر مسلمان اپنے دینِ فطرت سے بیگانہ ہوجائے اور حسنِ اخلاق کی تعلیم کو پس پشت ڈال دے۔ یہ ایک سازش تھی کہ ایسا نصاب تعلیم مدون کیا جائے کہ مسلمان اگر عیسائی نہ ہو تو وہ پکا مسلمان بھی نہ رہے۔ علامہ اقبال کایہ خیال حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آیا اور سب نے دیکھا کہ موجودہ نظام تعلیم اسلامی اصولوں اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔

جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ طفلِ مکتب اخلاق پیمبری سے دور ہے اور وہ اسلاف کے طرزِ زندگی کو قدامت پسند کہنے پر مصر ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے دور میں اس بات کو بخوبی جان لیا تھا کہ انگریز کی ہر ممکن کوشش تھی دل مسلم کو محبت رسول ﷺ سے خالی کردیا جائے۔ علامہ اقبال نے ایک مصرعے میں انگریزوں کی اس ناپاک جسارت کی نشاندہی کی :

روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

یعنی جو مسلمان اپنے آقا محمد ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اپنے طور طریقوں کو ان کے قالب میں ڈھالتاہے تو تعلیم کے ذریعے اس کے ذہن میں ایسے شکوک و شبہا ت پیدا کیے جائیں کہ اس کے دل سے آقا ﷺ کی محبت ختم ہوجائے اور وین سے بیگانہ ہوجائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبال کے تصور تعلیم جو دین فطرت سے رغبت رکھتا ہے اس کے مطابق تعلیم عام کی جائے تاکہ مسلمانوں کو اپنی گمشدہ میراث واپس مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).