60 سال میں پہلی مرتبہ سرکاری ایجنسی کے مسلح افراد کراچی پریس کلب میں داخل


کراچی

کراچی پریس کلب میں رات کے وقت سادہ لباس میں ملبوس افراد کے گھسنے اور کلب کے مختلف کمروں کی ویڈیوز بنانے کے واقعے کے خلاف پریس کلب انتظامیہ نے جمعے کو دوپہر تین بجے پریس کلب کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

جوائنٹ سیکریٹری پریس کلب، نعمت خان کے مطابق گذشتہ رات کراچی پریس کلب کی چھت پر 14 اگست کے رضاکاروں کے لیے پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں لگ بھگ 50 سے زائد صحافی موجود تھے۔

’اس تقریب کے دوران تقریباً تین چار لوگ اوپر آگئے، ان کے پیچھے کلب کے مینیجر بھی آگئے اور اس سے پہلے کے ہم ان سے سوال کرتے وہ لوگ واپس نیچے چلے گئے۔ ہم بھی ان کے پیچھے گئے اور ان کے آنے کا مقصد پوچھا جس پر ان میں سے ایک نے بتایا کے وہ عمران نامی آدمی سے ملنے آئے ہیں۔‘

اسی بارے میں مزید پڑھیے

کیا پاکستان میں میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہے؟

’صحافی سیلف سینسرشپ پر مجبور‘

خاموش رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے؟

’پاکستان میں مزاحمتی صحافت بھی دم توڑ رہی ہے‘

کلب کے اراکین نے ان افراد کو عمران کو فون ملانے کو کہا جس پر ان کو جواب ملا کہ عمران کا فون بند مل رہا ہے۔ اس پر اراکین نے انھیں وہاں سے جانے کو کہا۔

’ہم جب ان کے پیچھے چلنے لگے تو ایک ایک کر کے عملے نے ہمیں بتایا کہ کیسے ان افراد نے پہلے پریس کلب کے پارکنگ لاٹ کی ویڈیوز بنائی پھر کچن کی طرف گئے۔ جب کچن کے عملے نے پوچھا کہ آپ کون لوگ ہیں اور یہاں کیا کررہے ہیں تو ان کو کہا گیا کہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں آپ اپنا کام کریں۔‘

پریس کلب کے صدر احمد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک درجن افراد پر مشتمل یہ ٹیم لینڈ کروزر اور ویگو گاڑیوں میں پریس کلب آئی تھی اور ان کے ساتھ پولیس کے اہلکار بھی ساتھ تھے جو پریس کلب کے باہر کھڑے تھے۔ ان افراد کے ہاتھوں میں لوکیٹر اور موبائل کیمرے موجود تھے۔‘

کراچی

احمد خان کے مطابق جب واقعے کے بعد پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ افسران کو بتایا تو مختلف ادارے حرکت میں آگئے۔

’ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک سرکاری ایجنسی کے لوگ تھے، جو کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کی تلاش میں تھے۔ لیکن ان کے پاس موجود لوکیٹر میں 20 سے 25 میٹر کا فرق آرہا تھا جو پریس کلب کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ اس لیے یہ افراد غلطی سے اس جانب آئے۔‘

لیکن نعمت خان کے مطابق یہ افراد پریس کلب میں موجود گارڈ کے کئی بار روکنے کے باوجود اندر آئے اور ویڈیو بنانے لگ گئے۔

جب یہ بات پریس کلب کے صدر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے رکھی تو ان کو بتایا گیا کہ ’پریس کلب میں داخل ہونے والے سرکاری ایجنسی کے افراد کا حال ہی میں کراچی ٹرانسفر ہوا ہے اور اس لیے ان کو پریس کلب کے بارے میں پتا نہیں تھا۔‘

اس وقت پریس کلب کے مرکزی احاطے میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں ہے جبکہ صرف مرکزی دروازے پر اور عمارت کے عقبی حصے میں پارکنگ میں سی سی ٹی وی موجود ہے۔ صدر پریس کلب کے مطابق اب 16 کیمرے نصب کیے جائیں گے۔

کراچی

احمد خان کے مطابق کراچی پریس کلب کی 60 سالہ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہیں جس میں کسی سرکاری ایجنسی کے افراد اس طرح کلب میں داخل ہوئے ہوں۔

’1958 میں قائم ہونے کے بعد سے آج تک پریس کلب کے سامنے کئی احتجاج ہوئے ہیں اور کئی بڑے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم نے کئی آمریتیں بھگتائی ہیں اسی پریس کلب سے کام کرکے یا باہر احتجاج کرکے۔ لیکن کبھی بھی پولیس یا مسلح افراد یہاں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ اس جگہ کا تقدس اپنی جگہ ہے جو ہم کسی کو پامال نہیں کرنے دے سکتے۔‘

پریس کلب کی انتظامیہ کے مطابق ایڈیشنل آئی جی امیر احمد شیخ نے اس واقعے کی تہہ تک پہنچنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp