کمزور و بے جان ٹھگس آف ہندوستان


امیتابھ بچن، عامر خان کی فلم ٹھگس آف ہندوستان کے خوبصورت مناظر آپ کی آنکھوں کی تسکین کا ساماں بن سکتے ہیں مگر کمزور بلکہ بے سروپا کہانی اور مانگے تانگے کے کرداروں نے اسے ایک اچھی فلم بننے سے روک دیا ہے۔

اگرآپ وجے کرشنا اچاریہ کہ دھوم 3 دیکھ چکے ہیں تو یہ جان لیں کہ اس بار بھی انہوں نے وہی فارمولہ اپنایا ہے۔ یعنی کچھ پرانی فلموں یا ان کے کرداروں کو لے کر ان کا مقامی انداز میں گھوٹا لگا حلیم تیار کیا جائے مگر اس بار وہ شاید اس حلیم میں گوشت ڈالنا بھول گئے۔

جیسے دھوم 3 ”دی پریسٹیج“ اور ”ناؤ یو سی می“ کا ملغوبہ تھی، ویسے ہی ٹھگس آف ہندوستان ”پائریٹس آف دا کریبین“ کا سستا بالی ووڈ انداز ہے جس مقامی زبان میں فلما کر اس میں چند پرانی بالی ووڈ فلموں جیسے “شان” اور “دھرم ویر” کے سین زبر دستی شامل کردیے گئے ہیں۔

ٹھگس آف ہندوستان 1795 میں ہندوستان کی ایک ریاست کی کہانی ہے جسے کے والی کو انگریز دھوکے سے چت کرکے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی اہلیہ اور بیٹے کو بھی قتل کردیتے ہیں صرف ایک بچی زفرینہ کو ان کا ایک وفادار خدا بخش بچا کر لے جاتا ہے جو گیارہ سال بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک منظم مزاحمت شروع کردیتے ہیں۔

کمپنی اس مزاحمت سے پریشان ہوکر ایک عیار و مکار ٹھگ فرنگی ملاح (عامر خان) کی خدمات حاصل کرتی ہے تاکہ باغیوں کا کھوج لگایا جاسکے۔ باقی ساری فلم اسی بنیاد پر چلتی ہے کہ فرنگی ملاح کب کیسے کس کا اور کیوں ساتھ دیتا یا چھوڑتا ہے۔

اگر آپ نے اسی یا نوے کی دہائی کی بالی ووڈ فلمیں دیکھی ہیں تو یہ فلم آپ کی پرانی یادوں کا ایک ریمکس ورژن ہے، مگر ویسا ہی جیسا ابھی آپ نے “کوکوکورینا” کی شکل میں بُھگتا ہے۔ فلموں کے شائقین کو اس میں کئی فلموں اور کرداروں کے واضح اثرات ملیں گے جنہیں آسان زبان میں چربہ کہنا بہتر ہوگا۔

امیتابھ بچن نے ایک لڑاکا کا کردار اگرچہ انتہائی خوبی سے نبھایا ہے، تاہم ان کا کردار، “باہوبلی” کے کٹپّا، “خدا گواہ” اور “مرد” میں ان کے باپ کے کردار سے بہت قریب ہے۔ فلم مرد میں امیتابھ کے والد کا نام آزاد تھا اور وہ بھی انگریزوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔

فاطمہ ثناء شیخ کا کردار زفیرا، ہنگر گیمز کی کیٹنس ایورڈین کا ہندوستانی ورژن ہے جبکہ خود عامر خان مشہور زمانہ جیک اسپیرو کا مقامہ روپ بھرے ر ہے۔

عامر خان نے گرگٹ جیسے سبزی مائل کوٹ پہن کر اپنے کردار کو گرگٹ سے مشابہہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور ساتھ ہی مزاحیہ انداز اپنانے پر بھی زور دیا مگر بے جان کہانی اور مکالموں کی وجہ سے بے رونق رہا۔

کترینا کیف کے پاس دو گانوں اور تین سین کے علاوہ کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ ان کا کردار نمائش کی حد تک محدود رہا تاہم انہوں نے فلم میں کچھ اپنا جمال (گلیمر) ضرور ڈال دیا۔

پوری فلم میں ایک بھی موقع ایسا نہیں جس میں آپ کہیں کہ یہ غیر متوقع ہے۔ یہ پوری فلم ہی آپ کو دیکھی ہوئی محسوس ہوگی کیونکہ تقریباً ہر سین ہی کہیں نہ کہیں سے مستعار بلکہ چرایا گیا ہے۔

بنیادی طور پر یہ ایکشن فلم ہے مگر ایکشن کے مناظر انتہائی بودے اور بے ربط ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک عام سی فلم ہے جسے اس کی اسٹار کاسٹ اور ویژول ایفکٹس نے بڑا کر دیا ہے۔

تین سو کروڑ بھارتی روپے میں بننے والی یہ فلم یقیناً اس سال کی بری فلموں میں شمار ہوگی، مگر پی کے اور دنگل جیسی فلمیں دینے والے عامر خان کے لیے یہ فکر کا لمحہ ہے، اگرچہ میری رائے میں یہ فلم باکس آفس پر کامیاب ہوجائے گی کیونکہ اس میں جس طرح ایک انگریز جنرل کی ایک ہندوستانی کے ہاتھوں شکست دکھائی ہے وہ کئی بھارتیوں کا خواب ہے اور ہمارے خطے میں ویسے بھی آج کل تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا دور دورہ ہے تو عام بھارتیوں کے لیے یہ ایک ذہنی آسودگی کا سبب بن سکتی ہے۔
دوسری جانب آخر میں انگلستان کی جانب سفر سے مجھے گمان ہوتا ہے کہ اس فلم کا سیکیوئل بھی ناممکنات میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).