ہم سفرِ ایلیا کے مسافر ہیں


جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ جون ایلیا رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی تھے۔ رئیس امروہوی ایک بہترین صحافی تھے۔ جون ایلیا برِصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں مہارت حاصل تھی۔

جون ایلیا ایک احساس کا نام ہے۔ جون ایلیا ایک وجود کا نام ہے وہ وجود جو ایک منفرد وجود ہے۔ جون میری نظر میں ایک خود رنگ شاعر تھے۔ جون وہ شاعر تھے کہ جس کا اپنا ہی ایک رنگ، اپنا ہی ایک انداز تھا۔ جون نے ہمیشہ ایک منفرد مزاج میں شاعری کی۔ وصل، ہجر، فراق کو کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ دنیا جون کی دیوانی ہوگئی۔ غزل کا ایک نیا اسلوب جو جون نے متراف کروایا وہ انتہائی منفرد ہے۔ جون کی شاعری کے اندر ہمیں ایک شکایتی عنصر او ر طنزیہ عنصر بھی ملتا ہے کہ کس طرح جون اپنے محبوب سے شکوہ کرتے ہیں اور اس شکوے کا احسا س جون کی شاعری میں نمایاں ہے جیسا کہ:

غم فرقت کا شکوہ کرنے والی
میری موجودگی میں سو رہی ہے

ہے پہلو میں ٹکے کی اک حسینہ
تیری فرقت گزاری جا رہی ہے

جون جذبوں میں بھی منافقت کا قائل نہیں تھا۔ جون نے ہمیشہ اپنے جذبات، مشاہدات اور ذاتی تجربات کو نہایت ایمانداری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جون نے غزل کو نئے زاویے، قافیہ، بحر، محاورے، اور سلیقے بخشے ہیں۔ جون نے معاشرے کی فرسودہ روایات کو للکارا ہے۔ جون کی شاعری میں ہمیں اس وقت کے معاشرے کے خلاف ایک تلخ احساس اور ایک تلخ خیال بھی نطر آتا ہے جو کہ ایک انتہاپسند معاشرہ تھا اور جون نے اس انتہاپسند معاشر ے کے خلاف آوا ز بلند کی۔ جون کہتے ہیں کہ:

کون ہے کس کی آرزو کیجئے
کس کے لہجے میں گفتگو کیجئے
ایلیا جون خون تھوک چکے
آپ اس خون سے وضو کیجئے

جون ایلیا نے ہمیشہ ایک کرب میں زندگی بسر کی۔ کہتے ہیں کہ جون ایلیا کی خواہش تھی کہ انہیں ٹی بی کا مرض لاحق ہو اور ان کی یہ خواہش عملی طور پر قبول بھی ہوئی۔ جون نے اپنے زخموں، درد اور قرب کو اس طرح اور اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ لوگوں کو یہ خواہش ہونے لگی کہ یہ دکھ، درد، اور تکلیف والی زندگی انہیں بھی ملے۔ جون کے پڑھنے والوں کے اندر جون ایک نشہ سا پیدا کر دیتے ہیں جو انہیں کسی اور کی شاعری میں ہرگز نہیں ملتا۔ جون کا مشاعروں میں ایک الگ انداز، ایک الگ احساس ہی انہیں دوسرے شاعروں سے مختلف کرتا ہے۔ جون نے ہمیشہ سکے کے دو رخ دکھائے۔ ان کے اشعار کے اندر کسی مخصوص زاویے کو تلاش کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ جون نے ایک مشاعرے میں کہا کہ آج میں درد سے بھرا ہوا اور حساس ہوں، مجھے امید ہے کے یہ میرا آخری مشاعرہ ہوگا۔ اس مشاعرے میں جون نے جو اشعار پڑھے وہ نہا یت دلفریب تھے۔ اس مشاعرے میں پڑھے گئے کچھ اشعار یہ تھے۔

چارہ سازوں کی چارہ سازی سے
درد بد نام تو نہیں ہوگا
ہا ں دوا دو مگر یہ بتلا دو
مجھے آرام تو نہیں ہوگا

حضرت جون کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے اشعار کے اندر کہیں نہ کہیں ایک شرارت ضرور ہوتی ہے۔ اپنے درد اور تکلیف کو اپنی زبان سے کچھ اس انذار میں پیش کیا کہ محفلوں میں بیٹھے حاضرین بھی داد یئے بغیر نہ رہ سکے۔ جون نے جو ماتم کر کے اور ایک درد سے بھری ہوئی شاعری پیش کی وہ بھی انتہائی منفرد ہے۔ جون نے فرمایا ہے کہ:

ایک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہوگئی

یا یہ شعر کہ

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

جون کے مجموعہ کلام میں گمان، لیکن، شاید، یعنی اور گویا شامل ہیں۔ جون کی نثر جو اتنی مقبول نہیں لیکن پڑھنے کے قابل ضرور ہے۔ ان کے نثر میں فرنود ایک ایسا شاہکار ہے جس نے جون کی شخصیت کو مزید نکھار دیا۔ جون کے نثر میں سے ہم بہت سے ایسے جملے اپنی زندگی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ جون کو سب سے زیادہ مقبولیت اس وقت ملی جب جون کی شاعری سوشل میڈیا پر دیکھی گئی۔ جون ایک سوچ، جون ایک فکر کا نام ہے، جون ایک محبت کے قرینے کا نام ہے۔

حضر ت جون کو ہم سے بچھڑے ہوئے16 برس بیت گئے۔ جون آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے اشعار اور ان کی شاعری نے آج بھی دھوم مچا رکھی ہے۔ جون کے پڑھنے والوں کو یہ ذوق شاید کہیں اور نہیں مل سکتا۔ میرا خیال ہے کہ جون بروزِ محشر بھی انتہائی مختلف ہوں گے۔ جون کی یہ سوچ، یہ خیال، یہ وجود، یہ احساس اور یہ فکر ہمشیہ قائم رہے گی کیونکہ حضرت جون اس روشنی کا نام ہے جو کبھی مدھم نہیں ہوسکتی۔

کیسا نقصان ہو گیا اپنا
شہر سنسان ہوگیا اپنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).