خارجہ پالیسی: خرابی کی اصل جڑ کہاں؟


\"fazleپاکستان کی خارجہ پالیسی آج کل میڈیا میں زیر بحث ہے۔ تمام تجزیہ نگار اس اَمر پہ متفق ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور وہ نہ صرف عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے بلکہ اس کے ماضی کے برادر ملک بھی اس کی حمایت سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ صرف چین ایسا پڑوسی اور دیرینہ دوست ہمارے کام آسکتا ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ اس کے بہت سے سیاسی اور اقتصادی مفادات پاکستان کے ساتھ پیوست ہیں۔ حال ہی میں پاک افغان تورخم بارڈر پہ دونوں ممالک کے درمیان جو تلخی پیدا ہوئی ہے، وہ ابھی تک قائم ہے۔ اگرچہ تورخم سرحد کو آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے گیٹ کی تعمیر پر افغانستان کی ناراضی ابھی بھی قائم ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ اور اس کی افغان حکومت اور عوام کی طرف سے پزیرائی تزویراتی گہرائی کے خالقوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے لیکن ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ افغانستان کی بعض شکایات بالکل جائز ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان افغانستان کو اپنے ایک باج گزار ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ طالبان کے بعض گروہوں کو پناہ دیتا رہا ہے جو افغانستان کو مستقل طور پر عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتے ہیں لیکن طالبان کا یہی مخصوص ٹولہ کبھی بھی مکمل طور پر پاکستان کے زیر اثر نہیں رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی تو پاکستان اس سے موجودہ پاک افغان سرحد مستقل سرحد کی حیثیت سے تسلیم کروا لیتا جس سے ڈیورنڈ لائن کا قضیہ ہی ختم ہوجاتا لیکن طالبان سمیت کوئی بھی افغان حکمران ڈیورنڈ لائن کے پار پاکستانی علاقوں پر اپنے دعویٰ سے دست بردار نہیں ہوا ہے۔ دوسری طرف ہمیں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، اسے حق حاصل ہے کہ وہ جس سے چاہے قریبی تعلقات استوار کرے، تاہم ہم بھی اتنا حق ضرور رکھتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جاسکے۔ ہم نے تزویراتی گہرائی کے حصول میں افغانستان کے ساتھ حقیقی دوستی کا رشتہ کھودیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا زمینی رابطہ ہے، اس کی بہت سی ضروریات کا انحصار پاکستان پر ہے جس میں سمندر تک رسائی جیسی سہولت بھی شامل ہے۔ اس طرح افغانستان ہماری مصنوعات کے لیے ایک بڑی تجارتی منڈی ثابت ہوسکتا ہے لیکن ہم نے اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف سنجیدگی سے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ حالات کی خرابی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک کے مابین نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے مظاہر سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

امریکا کی مستقل دریوزہ گری نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ ہمارے ارباب بست و کشاد امریکا سے ہمیشہ یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ امریکا جب ہمارے ذریعے اپنے مقاصد پوری کرتا ہے تو پھر آنکھیں پھیر لیتا ہے لیکن امریکا نے بارہا ہمیں یہ بھی یاد کرایا ہے کہ وہ اپنے ہر کام کے لیے باقاعدہ ادائیگی کرتا رہا ہے۔ اس لیے ہماری یہ شکایت بے جا ہے۔ ہر ملک اپنے تعلقات دوسروں کے ساتھ اپنے مفادات دیکھ کر قائم کرتا ہے اور ان میں اتار چڑھاؤ بھی باہمی ضروریات کے مطابق آتا رہتا ہے۔ اگر ہم اپنے وسائل کے اندر رہ کر اپنے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں تو ہمیں امریکی امداد کے لیے محتاج نہیں ہونا پڑے گا۔ یوں ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے اہل ہوسکیں گے۔

ا مریکا اور ایران کے درمیان ایک طویل عرصہ سے دشمنی چلی آ رہی تھی لیکن امریکا کو کبھی جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ ایران کی سرحدوں کو پامال کرسکے۔ دو دفعہ جب امریکی ڈرون طیارے ایران کی فضائی حدود میں گھس آئے تھے تو ایران نے اس کا ایک ڈرون طیارہ مار گرایا تھا جب کہ دوسرا زمین پر نیچے اتارا تھا، اس کے بعد امریکا کو ایسی کوئی جرأت نہ ہوسکی لیکن پاکستان میں قبائلی علاقوں میں چار سو سے زائد ڈرون حملے ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں پاکستانی شہری مارے جاچکے ہیں لیکن پاکستانی حکام احتجاجی بیانات جاری کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرسکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 21 مئی کو بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ایک ڈرون حملہ ہوا جس میں افغان طالبان کمانڈر ملا اختر منصور مارے گئے، یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے باہر پاکستانی سرزمین پر دوسرا ڈرون حملہ تھا، اس سے قبل خیبر پختونخوا کے علاقے ٹل میں 2014ء میں ایک حملہ ہوچکا تھا لیکن پاکستان اپنی سرحدوں کی پامالی پر کچھ بھی نہیں کرسکا۔ جب تک ہم امریکا سے امداد لیتے رہیں گے، اس وقت تک ہم اپنی خود مختاری کا تماشا دیکھتے رہیں گے۔

موجودہ حکومت پر بڑے شد و مد سے تنقید ہوتی رہتی ہے کہ اس کا کوئی وزیر خارجہ موجود نہیں۔ یہ منصب وزیراعظم نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ ہمیں وزیر خارجہ کی ضرورت ہے بھی نہیں کہ یہ ذمہ داری اصل مقتدر قوتوں کے پاس ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کوشش کی تھی کہ خارجہ پالیسی جمہوری حکومت بنائے اور اس کے تحت افغانستان اور ہندوستان سے تلخیاں ختم کرکے دوستانہ تعلقات قائم کرلیے جائیں تو کینیڈا سے تشریف لانے والے طاہر القادری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’’تھرڈ ایمپائر‘‘ کے اشارے پر اسلام آباد میں حکومت کے خلاف طویل دھرنے دئیے جس کے نتیجے میں نواز شریف کو خارجہ پالیسی اپنے ہاتھ میں لینے سے تائب ہونا پڑا تھا۔ جو کام ایک جمہوری حکومت حکمت اور تدبر سے کرسکتی ہے، وہ عمل ایک غیر متعلقہ فریق جارحانہ انداز میں کیسے نمٹا سکتا ہے؟

دوسری طرف امریکا نے خود تو ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کامیابی حاصل کرلی لیکن اس نے پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ نہ ہونے دیا۔ اب بھارت اور ایران نے چاہ بہار کے منصوبے میں افغانستان کو بھی شریک کرلیا ہے۔ اس نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے ہرات تک سڑک تعمیر کرکے بھارت اور دیگر ملکوں کو افغانستان تک رسائی دے دی اور افغانستان کو پاکستان کے راستے تجارت اور آمد و رفت کی بجائے ایک متبادل ذریعہ فراہم کردیا ہے۔ جبکہ ہم نے امریکی ایما پر ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ کھٹائی میں ڈال کر ایران کو ناراض کردیا تھا حالاںکہ ایران پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھا کر اپنا کام مکمل کر چکا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے اس منصوبے میں بنیادی طور پر بھارت بھی شامل تھا اور اگر یہ منصوبہ بروقت روبہ عمل لایا جاتا تو بھارت کو ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کی ضرورت نہ رہتی۔

افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ جنگ کی فضا پیدا کرکے ہم ہی نقصان میں رہیں گے۔ افغانستان تو ویسے بھی حالت جنگ میں ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی سے بھارت اور امریکا کو پاکستان کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آئے گا۔ افغانستان کو ماضی میں برطانیہ اور روس زیر نہیں کرسکا ہے اور اب امریکا پندرہ سالوں سے اس کوشش میں بہت کچھ گنوا چکا ہے تو ہم اسے کیسے اپنا باج گزار ملک بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ ہمیں اس خوش فہمی نہیں رہنا چاہئے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں نے سوات اور وزیرستان میں پاکستان مخالف طالبان کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔ سوات میں تو حقیقی طالبان موجود ہی نہیں تھے، لیکن وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں بھی وہ عسکریت پسند پناہ گزیں تھے جنہیں کسی نہ کسی شکل میں ریاستی اداروں کی آشیرواد حاصل تھی، اس لیے جب ان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے تو ان کا خاتمہ باآسانی ہوا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کے لیے بھی لاکھوں کی تعداد میں عوام کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑا، ہزاروں بے گناہ پاکستانی شہریوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، تب یہ کامیابی ممکن ہوسکی ہے۔ جب کہ اس کے نتیجے میں وزیرستان کے رہنے والے اب بھی دربدری کا عذاب سہ رہے ہیں۔ افغانستان کی طرف سے اگر ہمیں ان کے حامی طالبان کی شکل میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو ہمیں بڑی مشکل پیش آئے گی۔ اس لیے ہمیں افغانستان کی جائز شکایات پر توجہ دینی چاہئے اور مفاہمت و تدبر سے کام لے کر اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔ اگر اب بھی ہم جنرل ضیاء الحق کے دور کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تو وطن عزیز میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جو قتل و غارت اور خوںریزی ہو رہی ہے، یہ سب ضیاء دور کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے لیے اپنے ملک کو فرنٹ لائن سٹیٹ نہ بناتی تو نہ سوویت افواج شکست سے دوچار ہوتیں اور نہ ہی دنیا کی طاقت کا توازن بگڑتا۔ ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہییں کہ جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی تو اُس وقت عالمی سطح پر بد اَمنی اور دہشت گردی زیادہ تھی یا اب جب امریکا واحد سپرپاور کی حیثیت سے بلا خوف و خطر دنیا بھر کے معاملات میں دخیل ہوچکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments