قہوے کا فلسفہ، سیکولرازم کا کفر اور دانش کا جنازہ


بہت سے عام دنوں کی طرح یہ بھی ایک عام دن تھا۔ کچھ دوست احباب چائے کی محفل پر جمع ہوئے اور ملکی سیاست پر بات شروع ہوئی۔ بات بڑھتے بڑھتے سیاسیات سے فلسفے کی حدود میں داخل ہو گئی۔ ایسے میں ایک معزز دوست نے ایک باریک نکتہ بیان کیا۔ فرمانے لگے ’ سیکولرازم اصل میں دہریت کا نام ہے ’ ایک اور دوست جو فلسفے اور سیاسیات سے تھوڑا بہت شغف رکھتے ہیں، انہوں نے پوچھا، یہ بتائیں کہ سیکولرازم کا یہ مفہوم آپ نے کہاں سے اخذ کیا؟ نکتہ ور دوست فرمانے لگے، ’ ہمارے وقت بڑے عالم اور فلسفی جناب احمد رفیق اختر صاحب نے ایک لیکچر میں بتایا تھا‘۔

 فلسفے والے دوست نے پھر اعتراض اٹھایا مگر اس بار اعتراض کی نوعیت الگ تھی۔ پوچھا، ’ اب اس بحث کو تو چھوڑ دیجیے کہ سیکولرازم کیا ہے اور کیا نہیں، ازراہ کرم یہ بتائیں کہ احمد رفیق اختر صاحب کس قاعدے سے آپ کو فلسفی لگتے ہیں ’ اس پر ایک طویل گفتگو ہوئی جس میں جناب احمد رفیق اختر صاحب کی مذکورہ ویڈیو بھی چلائی گئی۔ بالآخر قرعہ فال میرے نام نکلا اور سوال پوچھا گیا کہ کیا میں احمد رفیق اختر صاحب کو فلسفی مانتا ہوں یا نہیں؟ عرض کیا، میں فلسفے کی کوئی شدبد تو نہیں رکھتا تاہم ماما قادر کے اصول پر اگر بیان کیا جائے تو پروفیسر صاحب ایک جید فلسفی ہیں۔ نکتہ ور دوست کو ماما قادر کا حوالہ کچھ زیادہ مرغوب نہیں لگا۔ پوچھنے لگے، ماما قادر کا کیا اصول ہے بھلا؟

اپنے ماما قادر قہوہ بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ قہوے کو ہمارے ہاں پشتو میں ”شنے چائے“ کہتے ہیں۔ ایک دن ویسے بیٹھے بیٹھے ماما سے پوچھا کہ ماما آپ شنے چائے اتنی زیادہ کیوں پیتے ہیں؟ فرمانے لگے، ’ شنے چائے کے بارے میں میرا ایک فلسفہ ہے ’ اور پھر نیم حکمت سے لے کر دیہی سائنس تک شنے چائے کے بارے میں طولانی اقوال سنائے۔ اب اگر شنے چائے کے بارے میں بھی فلسفہ ہو سکتا ہے تو احمد رفیق اختر صاحب کیوں فلسفی نہیں ہو سکتے؟ یہ بات نکتہ ور دوست کو پسند نہیں آئی۔ خیر محفل ختم ہوئی۔ رات کو اسی دوست نے وٹس ایپ پر پروفیسر صاحب کی وہی ویڈیو ارسال کی تھی اور ساتھ میں پیغام بھیجا تھا کہ آپ اسے سن لیں تو ہم اگلی محفل میں اس پر سنجیدہ گفتگو کریں گے۔

ذاتی طور پر پروفیسر صاحب کے بارے میری ایک رائے ہے جو ظاہر ہے غلط ہو سکتی ہے۔ میں بنیادی طور پر ان کو ایک اچھے داستان گو کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ جب بھی ان کو سنا یا پڑھا، تو یوں محسوس ہوا جیسے بے انتہا خطیبانہ طرز کلام کے ساتھ ساتھ وہ کچھ ایسے مخفی علوم پر دسترس کا دعوی رکھتے ہیں جن کے بارے میں کوئی معروضی دلیل پیش کرنا نہ صرف ممکن نہیں بلکہ وہ سرے سے اس علم کو بھی خلوت کی چیز سمجھتے ہیں جو سیکھانہیں جاتا بلکہ یہ علم کسی پر بیت جایا کرتا ہے۔ اور بیت بھی ایسے جاتا ہے کہ دوسرے انسان کا نام سنتے ہی اس شخص کی شخصیت پروفیسر صاحب پر آشکار ہو جاتی ہے۔ اب اس پر ظاہر ہے دلیل کی روشنی میں کوئی بحث کرنا ممکن نہیں۔ پروفیسر صاحب کے کلام کو اگر شاعرانہ پیرائے میں استعارات کا مجموعہ سمجھ کر پڑھا جائے تو شاید لطف انگیز ہو گا۔

تاہم خیال آیا کہ دوست کی بھیجی ہوئی ویڈیو دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔ ویڈیو چلائی تو ایک سوال ( قائد اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے یا اسلامی پاکستان)کے جواب میں پروفیسر صاحب فرماتے ہیں، ’ خواتین و حضرات، یہ سوال بڑا اچھا ہے مگر آپ مجھے بتایئے کہ جس قسم کی۔ میں! مطلب ہے۔ I am a religious، considered to be a religious scholar۔ مگر جب آپ کواپنے ارد گرد جو مذہبی ماحول نظر آتا ہے، اس میں کیا آپ مجھے سیکولر نہیں کہیں گے؟ جس قسم کا ماحول ہمارے ارد گرد نظر آتا ہے، اور جس قسم کی religious۔ میں جب مذہب پہ غور کرتا ہوں۔ سیکولر کون ہے؟ مطلب۔ سیکولر ازم اصل میں دہریت کا نام ہے۔ لاخدا ہونے کا نام ہے۔ لوگ اس کو بھی misinterpret کرتے ہیں۔ سیکولرازم کوئی ایسا اس میں عنصر ہی نہیں ہے خدا کے یقین کا۔ اس کے بنیادی دو فلاسفر ہیں۔ بریڈ لا ہیں۔ ہولی ہوکس ہیں۔ تو ہولی ہوکس یہ کہتا ہے کہ سیکولر ازم یہ کہ Where there is land، there is no sea، where there is sea، there is no land۔ اب آپ کے خیال میں، وہ کہتے ہیں جہاں سیکولرازم ہے وہاں مذہب نہیں ہے، جہاں مذہب ہے وہاں سیکولرازم نہیں ہے ’

پروفیسر صاحب کی اس گفتگو کا سادہ مطلب تو یہی ہے کہ سیکولرازم دہریت کو کہتے ہیں مگر یہاں اس عبارت کی تفہیم یا سیکولرازم کی تعریف سے زیادہ جس چیز نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ سیکولرازم کے دو فلاسفر تھے۔ سیکولرازم سے تھوڑا شغف ہونے کی بنا پریہ بات میرے لئے بہت حیران کن تھی کہ میں سیکولرازم کے دو بنیادی فلسفیوں کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ کئی کتابیں اٹھائیں، کئی حوالے دیکھے مگر بریڈلا اور ہولی ہوکس مل نہیں رہے تھے۔

بالآخر گوگل کا سہارا لیا۔ Brad law ڈھونڈا تو سامنے brad lawrence کا نام آیا یا پھر bradlows کے نام سے کوئی فرنیچر کمپنی کا نام سامنے آیا۔ بریڈ لا سے مایوس ہو کر ہولی ہوکس کی تلاش شروع کر دی۔ ہولی ہوکس کے جواب میں گوگل نے Hollyhocks دکھائے جو ایک قسم کے پھول تھے۔ ہجے بدل بدل کر دیکھے مگر سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔

ہتھیار ڈالنے سے پہلے جانے کس خیال سے گوگل پر اردو میں ’ ہولی ہوکس‘ ٹائپ کر دیا۔ خوشی کی ایک عجیب لہر جسم میں دوڑ گئی جب گوگل نے بتایا کہ اسے ہولی ہوکس مل گیا۔ یہ محترم ہارون الرشید صاحب، جو پروفیسر صاحب کے معتقد اور خاص دوست ہیں، کے دو کالم تھے۔ پہلا کالم بعنوان ”ذرا سا انتظار کیجیے“ اکتوبر 2011 کا تھا جس میں ہارون رشید صاحب نے ہولی ہوکس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ”محمد علی جناح(رح) محتاط بہت تھے اور دیانت دار بھی بے حد۔ جوشِ خطابت سے انہیں کوئی واسطہ نہ تھا اور خلقِ خدا کو لبھانے کی کوشش وہ کبھی نہ کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جس پہلے مغربی مفکر ہولی ہوکس نے سیکولرازم کی اصطلاح استعمال کی، اس نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی شخص انکارِ خدا کے بغیر، الحاد کے بغیر سچا سیکولر نہیں ہو سکتا۔ “ دوسرا کالم بعنوان ”اٹل ہے تقدیر اٹل ہے“ اگست 2011 کا تھا۔ اس میں ہولی ہوکس کا حوالہ قائد اعظم اور سیکولرازم ہی کے پس منظر میں تھا۔ وہ لکھتے ہیں ”اس اصطلاح کے بانی ہولی ہوکس نے کہا تھا کہ کوئی شخص سچا سیکولر ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ وہ انکارِ خدا پر قائم نہ ہو۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ مغربی اصطلاحات گمراہ کن ہیں۔ لفظوں کے خاندان اور نسلیں ہوتی ہیں۔ ان کا باہمی تعلق او ررشتہ و پیوند ہوتا ہے۔ پسِ منظر سے الگ کرکے کسی لفظ اور کسی اصطلاح کو سمجھا او رسمجھایا جا ہی نہیں سکتا۔ برصغیر مگر ضد اور احساس کمتری کی سر زمین ہے۔ ایک بار جس بات پہ لوگ اڑ جائیں، ٹلتے کسی طرح بھی نہیں“۔

ان عبارتوں سے علم ہوا کہ دراصل ہولی ہوکس وہ شخص ہے جس نے سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ استعمال کی۔ دل ہی دل میں اپنے استادوں اور ان تمام کتابوں کو کوسا جس میں سیکولرازم کی اصطلاح ایجاد کرنے والے شخص کا نام پڑھا تھا یا جن کتابوں نے انہیں ان کا نام غلط لکھا تھا۔ ہمیں تو ان اساتذہ اور ان کتابوں کے بتایا تھا کہ سیکولرازم کی اصطلاح پہلی بار اختیار کرنے والے شخص کا نام George Jacob Holyoake تھا۔ یہ بنیادی طور پر اخبار نویس تھے اورcooperator تھے جنہوں نے سیکولرازم کی اصطلاح ایجاد کی۔ اور Charles Bradlaugh نامی ایک اور اخبار نویس اور سیاسی کارکن ( political activist) کے ساتھ مل کر National Secular Society نامی ایک ادارہ بنایا۔ Charles Bradlaugh ہی وہ دوسرے شخص تھے جن کو پروفیسر صاحب بریڈلا بتا رہے تھے۔ یہ دونوں احباب سیکولرازم کی اصطلاح وضع کرنے اور نیشنل سیکولر سوسائٹی بنانے میں تو پیش پیش تھے مگر فلسفے کی کسی کتاب میں سیکولر فلسفیوں کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں اور نہ ہی ان سے منسوب کوئی سیکولر تھیوری کسی کتاب میں مذکور ہے۔

پروفیسر صاحب تو چلیں بول رہے تھے اس لئے یہ غالب امکان ہے کہ انہوں نے Holyoake کو ہولی ہوکس بول دیا ہو مگر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ محترم ہارون رشید صاحب تو قائداعظم کے بارے میں لکھ رہے تھے۔ ان کو تو کم ازکم پروفیسر صاحب کی تقریر سے نام اخذ کرکے ’ ہولی ہوکس‘ لکھنے کی بجائے درست نام پر تھوڑی سی تحقیق کر لینی چاہیے تھی۔ اب معلوم نہیں انہوں نے ہولی ہوکس نامی شخص کے اقوال کہاں سے اخذکیے تھے؟ بے شک انہوں نے درست لکھا کہ ’ برصغیر مگر ضد اور احساس کمتری کی سر زمین ہے۔ ایک بار جس بات پہ لوگ اڑ جائیں، ٹلتے کسی طرح بھی نہیں ’ پس ثابت ہوا کہ سیکولرازم دہریت کو کہتے ہیں۔ اخبار نویس فلسفی ہو تاہے۔ جہاں سمندر ہوتا ہے وہاں زمین نہیں ہوتی، جہاں زمین ہوتی ہے وہاں سمندر نہیں ہوتا۔ پروفیسر صاحب ایک بڑے فلسفی ہیں۔ اور نیز یہ کہ شنے چائے کا بھی فلسفہ ہو سکتا ہے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah