نامکمل جنس۔۔۔ کتنی الجھن ہوتی ہو گی


 کتنی الجھن ہوتی ہوگی جب آپ خود کو لڑکا محسوس کرتے ہوں اور آپ کو مجبور کیا جائے کہ لڑکی بن کر رہو یا معاملہ اس کے برعکس ہو۔ اس گمبھیرتا کو لوگ برسوں برداشت کرتے ہیں۔ بہت کم ہوتے ہیں جو ہمت کرکے یا موقع پا کر اسی طرح کی شخصیت کے طور پر زندگی بسر کرنے لگیں جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔

 اگرچہ ایم بی بی ایس کے فائنل امتحان میں میں اپنے بیچ میں فرسٹ آیا تھا تاہم مجھے اس دوران کسی ایسے”کیس” سے واسطہ نہیں پڑا تھا جو اس طرح کی الجھن کا عکاّس ہوتا۔ ہاں البتہ ایک خاتون کا کیس مجھے برائے مطالعہ دیا گیا تھا جو ہر طرح سے عورت لگتی تھی مگر ادھیڑ عمر کو پہنچنے کے باوجود ماں نہیں بن پائی تھی۔ اس کا دعوٰی تھا کہ اسے زندگی میں ایک ہی بار حیض آیا تھا اور وہ بھی شادی کے پہلے چند روز ۔ میں بہت مخمصے میں تھا کہ معاملہ کیا ہے؟ بالآخر تنگ آ کر میڈم سے کہا تھا کہ معاملہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا تھا، کل آپریشن تھیٹر میں سمجھ آ جائے گا۔ اگلے روز اس خاتون کی مصنوعی اندام نہانی بنائی گئی تھی۔ شادی کی رات کو حیض آنے کا مطلب یوں مجھے سمجھ آ گیا تھا اور آپ کو بھی آ گیا ہوگا۔ اس خاتون کے تولیدی اعضا تھے ہی نہیں جبکہ وہ بیس برس سے زیادہ عرصے سے ازدواجی زندگی بسر کر رہی تھی۔

 مگر یہ وہ کیس نہیں تھا جسے ہم مخنث کہہ سکتے ہوں۔ میں پاکستان میں بھی طب سے وابستہ رہا اور ایران میں بھی طبی استخدام کرتا رہا لیکن ایسے کسی مرد یا عورت سے واسطہ نہیں پڑا تھا جو اپنی مرضی کے بغیر اپنا آپ نہیں تھے۔

” جنس تبدیل ہو گئی” یا”لڑکی لڑکا بن گئی” یا”لڑکا لڑکی بن گیا” محض ہمارے ہاں کی صحافتی زبان کی خبریت ہے لیکن اس میں صداقت نہیں ہوتی۔ ہاں اتنا ہوتا ہے کہ ایسے افراد کی ممکن طرح سے زندگی گذارنے کے قابل بنانے کی خاطر جراحی کی جاتی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا کہ جو وہ خود بن کر رہنا چاہے، اسے اس طرح بننے دیں۔

 پاکستان میں عورتوں کے لباس میں جو ناچنے والے مرد ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں ہیجڑا کہا جاتا ہے، ان سے میں بھی اسی طرح خائف رہتا ہوں جیسے بہت سے مرد کیونکہ ان کے منہ میں جو آئے وہ کہہ دیتے ہیں اور جب تک آپ کچھ دے نہ دیں وہ آپ کی جان نہیں چھوڑتے۔ ایسا ہونے کی وجوہ بارے کہانیاں زیادہ ہیں اور سچ کم۔

 میں ماہر امراض خواتین بننا چاہتا تھا مگر زندگی نے اپنی کروٹ لے لی اور میں جو ہوں وہ بن گیا۔ بننے نہ بننے کا یہ چکر مجھے ماسکو لے آیا۔ اصل بات یہاں سے شروع ہوتی ہے، جس کے بارے میں میں ڈاکٹر لبنٰی مرزا کے پیشہ ورانہ اور مبنی بر انسانیت مضامین پڑھ کر بیان کرنے کی ہمت کر پایا ہوں۔

 وہ مجھے ایک لڑکی کے طور پر ملی تھی جو آج میرا اچھا دوست ہے۔ جب وہ ملی تھا تو اس کا نام مارینا تھا اور اب اس کا نام ماتے” میتھیو” ہے۔ وہ بہت ہنسوڑ ہے۔ اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک ہے۔ اس کے نمک کالی مرچ ملے ایسے بال اب چھدرے ہو رہے ہیں۔ وہ باتونی ہے مگر پر از تخئیل شخص ہے۔

 مارینا ایک عام لڑکی تھی۔ نوجوان، جس کے گھنے بھورے مائیل سیاہ بالوں میں کہیں کہیں چاندی کی تار چمکتی تھی جو اس کی کم عمری میں بہت اچھی لگتی تھی۔ اس نے یہی بتایا تھا کہ وہ فلسفہ پڑھتی ہے۔ اس کا تعلق جارجیا سے تھا اور وہ اپنا کوئی بندھن سوویت یونین کے آخری وزیر خارجہ شیواردنادزے سے بھی جوڑتی تھی، اس کی ان دونوں باتوں پر مجھے اعتبار نہیں آیا تھا۔ تب وہ بہت سنجیدہ ہوا کرتی تھی اور بہت اداس بھی، یہ اداسی اس کی آنکھوں سے مترشح ہوتی تھی۔ ظاہر ہے وہ لڑکی تھی اور میں مرد چنانچہ میں نے اس کی جانب میلان ظاہر کیا تھا تو وہ جھینپ گئی تھی۔ میں پہلے اس کیفیت کو اس کا عشوہ سمجھا تھا مگر جب وہ اس نوع کے تعلق سے مسلسل گریز کا اظہار کرتی رہی تو پہلے میں جھنجھلایا تھا پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اسے اپنے دفتر میں رہنے کی اجازت دی ہوئی تھی کیونکہ اس نے کہا تھا کہ ادائیگی نہ کرنے کے باعث اس کا ہوسٹل چھوٹ گیا تھا۔ وہ اس کے عوض کبھی کبھار ہمارے لیے کھانا بنا دیا کرتی تھی یا فراغت کے اوقات میں دفتر کے عمومی کاموں میں ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی۔ اس نے اپنی ایک اچھی سہیلی مایا کو مجھ سے متعارف کروا دیا تھا جو میری بہت اچھی دوست بنی اور اب تک ہے اگرچہ وہ عرصہ دراز سے سویڈن میں اپنے سویڈ شوہر اور بیٹی کے ہمراہ رہتی ہے۔

 پھر میرا کام ناکام ہو گیا، دفتر باقی نہ رہا البتہ مارینا اس سے پہلے میرے دفتر سے جا چکی تھی۔ کئی سال گذر گئے تھے۔ ایک رات گھر پر مجھے کسی مرد کا فون آیا تھا۔ کیسے ہو ، زندگی کیسے گذر رہی ہے، وغیرہ پوچھنے کے بعد اس نے کہا تھا”میں ماتے ہوں”۔ میں نے کہا تھا کہ میں کسی ماتے کو نہیں جانتا۔ اس نے کہا تھا،”چھوڑو میاں، ہماری تو چشمک زنی ہوا کرتی تھی” اور قہقہہ لگا دیا تھا۔ میں نے پھر بھی کہا تھا کہ مجھے یاد نہیں۔ اس نے جب مایا کا حوالہ دیا تو میں سمجھا تھا کہ شاید مایا کا کوئی دوست ہو لیکن یاد نہیں آرہا تھا کہ اس کا کوئی دوست مجھ سے ملا ہو۔ فون کرنے والے نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور میں نے یہ جان کر کہ مایا کا دوست ہے کہہ دیا تھا کہ جب چاہے مل لو۔ اس نے کہا تھا،”میں ابھی آنا چاہتا ہوں، مجھے ایڈریس بتاؤ”۔ میں نے بتا دیا تھا۔ میری بیوی نے تنک کر کہا تھا،”یہ رات گئے کس انجان شخص کو ایڈریس دے دیا تم نے؟” میں نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں ہے ہی کیا جو کوئی لے جائے گا، آنے دو۔ کوئی پینتالس منٹ کے بعد گھر کی بیل بجی تھی۔ بیوی دروازہ کھول کر باہر نکلی کیوں کہ آنے والے نے بیل باہر کے دروازے سے بجائی تھی۔ مجھے آوازیں آئیں جیسے میری بیوی بہت خوش ہو کر کسی سے مل رہی تھی اور آنے والا قہقہے لگا رہا تھا، ظاہر ہے خوش تھا۔ جب آنے والا شخص داخل ہوا تو وہ تیس بتیس سال کا کلین شیو جوان شخص تھا، جس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ اس نے جینز اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ میں اٹھ کر اس سے گلے ملا تھا پھر اس کے کان میں کہا تھا،”تم مارینا تو نہیں”۔ اس نے کہا تھا کہ بھول جاؤ مارینا کو میں ماتے ہوں۔ میری بیوی بھول کر اسے مارینا ہی کہتی رہی لیکن اس نے برا نہیں منایا تھا۔

 چند روز بعد میری بیوی کنٹری ہاؤس چلی گئی تھی۔ ماتے ایک دو روز کے لیے میرے پاس رہنے کے لیے آ گیا تھا۔ اس نے اپنی داستان سنائی تھی کہ وہ بچپن سے خود کو بچہ سمجھتا تھا مگر اس کی ماں اسے ربن باندھ دیا کرتی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ عورت کے بدن میں قید مرد کے طور پر جیتے ہوئے اذیت کا شکار رہا۔ اس نے ہارمون کھا کھا کر اپنی چھاتیاں ختم کر دی تھیں۔ جسم کے خم بہت کم کر دیے تھے، اگرچہ کسی حد تک باقی تھے یا مجھے دکھائی دیتے تھے کیونکہ میں اسے بحیثیت مارینا کے نہ صرف دیکھ چکا تھا بلکہ راغب بھی ہوا تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ تب تو تم لڑکی تھے، بدکتے تھے۔ اب تو یار ہو اور میں ڈاکٹر، مجھے اجازت دو کہ میں معائنہ کرکے کچھ جان سکوں۔ اس نے بادل نخواستہ اجازت دے دی تھی۔ میں سابقہ ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی صورت احوال دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا کہ وہ نہ تو مرد تھا اور نہ عورت لیکن مرد بھی تھا اور عورت بھی۔

 ماتے بہت اچھا میسیور ہے یعنی طبی مالشی۔ بہت سی لڑکیاں اس کی دوست ہیں۔ وہ چند ایک لڑکیوں کو اپنی لڑکیاں یعنی گرل فرینڈز کہتا ہے۔ میں اس کا مذاق اڑاتا ہوں کہ تیری گرل فرینڈز کیسے ہو سکتی ہیں۔ وہ قہقہہ لگا کر کہتا ہے میں عورتوں کے بدن کے راز سمجھتا ہوں، تمہیں کیا معلوم تسکین کے کتنے متنوع پہلو ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہی کہتا ہوگا لیکن ہے کمینہ اپنی کسی سہیلی کو میرے جیسوں کے پاس نہیں لگنے دیتا۔

 میں خوش ہوں کہ ماتے خوش ہے۔ اس نے اداس مارینا کو کہیں سلا دیا ہے۔ مگر کتنی مارینائیں ہیں جو ماتے نہیں بن سکتیں اور کتنے ماتے ہیں جو ماریناؤں کا روپ دھارتے ہوئے اپنوں اور غیروں سے ڈرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments