کون تھے اصلی ’ٹھگ آف ہندوستان‘، تاریخ کیا کہتی ہے؟


ہندوستان

حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ کی فلم ’ٹھگز آف ہندوستان‘ کو جہاں فلمی ناقدین نے پسند نہیں کیا وہیں باکس آفس پر اس فلم نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی ہے۔ بی بی سی ہندی کے ڈیجیٹل ایڈیٹر راجیش پریادرشی نے اس مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کے اصل ٹھگ کون تھے۔

ٹھگ لفظ سنتے ہی لوگوں کے دماغ میں ایک چالاک اور مکار آدمی کی تصویر ابھرتی ہے جو جھانسا دے کر کچھ قیمتی سامان ٹھگ لیتا ہے لیکن انڈیا میں 19ویں صدی میں جن ٹھگوں سے انگریزوں کا پالا پڑا تھا، وہ اتنے معمولی لوگ نہیں تھے۔

ٹھگوں کے بارے میں سب سے دلچسپ معلومات سنہ 1839 میں شائع ہونے والی کتاب ’کنفیشنز آف اے ٹھگ‘ سے ملتی ہیں۔ کتاب کے مصنف پولیس سپریٹنڈنٹ فلپ میڈوز ٹیلر تھے لیکن کتاب میں انھوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے ’اسے صرف قلم بند کیا ہے۔‘

دراصل، ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب ٹھگوں کے ایک سردار امیر علی خاں کا ’کنفیشن‘ یعنی اعترافی بیان ہے۔

فلپ میڈوز ٹیلر نے امیر علی خان سے جیل میں کئی دنوں تک بات کی اور سب کچھ لکھتے گئے۔ ٹیلر کے مطابق ’ٹھگوں کے سردار نے جو کچھ بتایا، اسے میں تقریباً لفظ بہ لفظ لکھتا گیا، یہاں تک کہ اسے ٹوکنے یا پوچھنے کی ضرورت بھی کم ہی پڑتی تھی۔‘

امیر علی خان کا بیان اتنا تفصیلی اور دلچسپ ہے کہ وہ ایک ناول بن گیا اور چھپتے ہی اس نے دھوم مچا دی۔ رڈیارد کپلنگز کے مشہور ناول ’کم‘ (اشاعت:1901) سے تقریباً 60 سال پہلے شائع ہونے والی اس کتاب کی ایک اور خاصیت تھی کہ یہ کسی انگریز کا نظریہ نہیں لیکن ایک ہندوستانی ٹھگ کا ’فرسٹ پرسن اکاؤنٹ‘ یعنی اس کی اپنی کہانی ہے جو اس نے خود سنائی۔

ٹیلر کا کہنا ہے کہ امیر علی خاں جیسے سینکڑوں سردار تھے جن کی سرپرستی میں ٹھگی کا دھندا چل رہا تھا۔ امیر علی خان سے جب ٹیلر نے پوچھا کہ تم نے کتنے لوگوں کو مارا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اور صاحب، وہ تو میں پکڑا گیا، نہیں تو ہزار پار کر لیتا۔ آپ لوگوں نے 719 پر ہی روک دیا۔‘

ٹھگی کا عالم تھا کہ انگریزوں کو ان سے نمٹنے کے لیے ایک الگ محکمہ بنانا پڑا تھا، وہی محکمہ بعد میں انٹیلی جنس بیورو یا آئی بی کے نام سے جانا گیا۔

ٹیلر نے لکھا تھا کہ ’اودھ سے لے کر دکن تک ٹھگوں کا جال پھیلا ہوا تھا، انھیں پکڑنا بہت مشکل تھا کیونکہ وہ بہت خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے۔ انھیں عام لوگوں سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ وہ اپنا کام منصوبہ بندی اور بے حد چالاکی سے کرتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔‘

ٹھگوں سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ڈپارٹمنٹ کے سپریٹنڈنٹ کپٹن رینولڈز نے سنہ 1831 سے 1837 کے درمیان ٹھگوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا 1838 میں تفصیلات بیان کی تھیں۔

اس بیورو کے مطابق پکڑے گئے جن 1059 لوگوں کا جرم پوری طرح ثابت نہیں ہو سکا تھا انھیں دور ملائشیا کے پاس پیناگ جزیرے پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ دوبارہ واردات نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ 412 کو پھانسی دی گئی اور 87 کو عمر قید کی سزائے ہوئی۔

ہندوستان

Book Cover Image

ٹھگوں کی پراسرار زندگی

ٹھگوں کے لیے انگریزوں نے ’سیکرٹ کلٹ‘، ’ہائی وے روبرز‘ اور ’ماس مرڈرر‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ’کلٹ‘ کہلائے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے رسم و رواج، اقدار، روایات، اصول اور طور طریقے تھے جن کا وہ بہت پابندی سے مذہب کی طرح احترام کرتے تھے۔ ان کی اپنی ایک الگ خفیہ زبان تھی جس میں وہ آپس میں بات کرتے تھے۔ اس زبان کو رماسی کہا جاتا تھا۔

انڈیا میں ٹھگوں کی کمر توڑنے کا سہرا میجر جنرل ولیم ہینری سلیمن کو دیا جاتا ہے جنھیں انگریز حکومت نے ’سر‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔

سلیمن نے لکھا ہے کہ ’ٹھگوں کے گروہ میں ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔ ٹھگی کی شروعات کیسے ہوئی یہ بتانا ناممکن ہے، لیکن اونچے رتبے والے شیخ سے لے کر خانہ بدوش مسلمان اور ہر ذات کے ہندو اس میں شامل تھے۔‘

مہورت سے ہوتا تھا ہر کام

چاہے ہندو ہوں یا مسلمان، ٹھگ شبھ مہورت دیکھ کر، پوجا پاٹھ کر کے اپنے کام پر نکلتے تھے، جسے ’جتائی پر جانا‘ کہا جاتا تھا۔ ٹھگی کا موسم عام طور پر درگا پوجا سے لے کر ہولی کے درمیان ہوتا تھا۔

تیز گرمی اور بارش میں رستوں پر مسافر بھی کم ملتے تھے اور کام کرنا مشکل ہوتا تھا۔ الگ الگ گروہ اپنے عقیدے کے حساب سے مندروں میں درشن کرنے جاتے تھے۔

زیادہ تر ٹھگ گروہ کالی ماتا کی پوجا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ہر اگلے قدم سے پہلے شگن اور اپشگن کا وچار کرتے تھے۔ الو کے بولنے، کوے کے اڑنے، مور کے چلانے، لومڑی کے دکھائی دینے جیسی ہر چیز کا وہ اپنے حساب سے مطلب نکالتے تھے۔

جتائی پر جانے سے سات دن پہلے سے ‘ساتا’، شروع جاتا تھا۔ اس دوران ٹھگ ان کے خاندان کے ارکان کھانے پینے، سونے اٹھنے اور نہانے حجامت بنانے وغیرہ کے معاملے میں کڑے اصولوں کا خیال رکھا کرتے تھے۔

ساتا کے دوران باہر کے لوگوں سے میل جول، کسی اور کو بلانا یا اس کے گھر جانا نہیں ہوتا تھا۔ اس دوران کوئی دان نہیں دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ کتے بلی جیسے جانوروں کو بھی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جتائی سے فارغ ہو کر لوٹنے کے بعد پوجا اور خیرات جیسے کام ہوتے تھے۔

اسی طرح ’اٹب‘ کے اصولوں کا احترام ہوتا تھا۔ ٹھگوں کا ماننا تھا کہ کام پر نکلنے سے پہلے پوری طرح ہونا بہت ضروری ہوتا تھا۔ گروہ کے کسی ٹھگ کے گھر میں کوئی جنم یا موت ہونے پر دس دنوں کے لیے، پالتو جانوروں کی موت ہونے پر تین دن کے لیے، اور اسی طرح جنم ہونے پر سات دن کے لیے یا تو پورا گروہ رک جاتا تھا یا وہ ٹھگ کام پر نہیں جاتا تھا، جس کے خاندان میں جنم یا موت ہوئی ہو۔


ہندوستان

کسی کی اہمیت

مارے جانے والے لوگوں کی قبر جس کدال سے کھودی جاتی تھی، اسے ’کسی‘ کہا جاتا تھا۔ کسی سب سے زیادہ اہمیت کی چیز تھی۔

تحقیق کے بعد اردو اور ہندی میں لکھے گئے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں شمس الرحمان فاروقی نے کسی کی پوجا کا طریقہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

’ایک صاف ستھری جگہ پر تھالی میں پانی سے کدالی کو دھو دیا جاتا ہے۔ پھر پوجا کا طریقہ کار جاننے والا ٹھگ بیچ میں بیٹھتا ہے، باقی ٹھگ نہا دھو کر اس کے چاروں طرف بیٹھتے ہیں، کدالی کو پہلے گڑ کے شربت، پھر دہی کے شربت اور آخر میں شراب سے نہلایا جاتا ہے۔ پھر تل، اور پھول سے اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ کدالی کی نوک پر سندور سے سات ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ اس کدالی سے ایک ناریل پھوڑا جاتا ہے۔ ناریل پھوٹنے پر سبھی ٹھگ، چاہے ہندو ہوں یا مسلمان ‘جے دیوی مائی کی’ بولتے ہیں۔‘

ٹھگوں کے درمیان ایسی کہانیاں مشہور تھیں کہ ان پر کدال دیوی کا مہربانی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور خاص بات یہ تھی کہ ٹھگ مانتے تھے کہ اگر وہ اصولوں کا احترام کرتے ہوئے اپنا کام کریں گے تو دیوی ماں کی ان پر مہربانی رہے گی۔

پہلا اصول یہ تھا کہ قتل میں ایک بوند بھی خون نہیں بہنا چاہیے، دوسرا کسی خاتون یا بچے کو کسی حال میں نہیں مارا جانا چاہیے، تیسرا جب تک مال ملنے کی امید نہ ہو، قتل بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

ٹیلر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امیر علی خاں کو اپنے کیے پر ذرا بھی پچھتاوا نہیں تھا۔ دوسرا سبھی ٹھگوں کے بارے میں بھی میجر جنرل سلیمن نے لکھا ہے کہ ’وہ مانتے ہی نہیں تھے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں، جن کی نظر میں یہ مختلف پیشوں کی طرح کا ایک پیشہ تھا اور ان کے من میں ذرا بھی پچھاوا یا دکھ نہیں تھا کہ کس طرح معصوم لوگوں کو مار کر وہ غائب کر دیتے ہیں۔‘


ہندوستان

کیسے ہوتی تھی راستوں پر ٹھگی؟

جتائی پر نکلنے والے ٹھگوں کا گروہ 20 سے 50 تک کا ہوتا تھا۔ وہ عام طور پر تین دستوں میں چلتے تھے، ایک پیچھے، ایک درمیان میں اور ایک آگے۔ ان تینوں دستوں کے درمیان تال میل کے لیے ہر ٹولی میں ایک دو لوگ تھے جو ایک کڑی کا کام کرتے تھے۔ وہ اپنی چال تیز یا دھیمی کرکے آگے ہوتے یا ساتھ آسکتے تھے۔

زیادہ تر ٹھگ، کئی زبانیں، گانا بجانا، بھجن کیرتن، نعت، قوالی اور ہندو مسلمان دونوں مذاہب کے طور طریقے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ ضرورت کے مطابق یاتری، باراتی، مزار کے زائرین یا نقلی جنازہ نکالنے والے بن جاتے تھے۔

ایک راستے میں وہ کئی بار اپنا روپ بدل لیتے تھے۔ ظاہر ہے، وہ بھیس بدلنے میں بھی خاصے ماہر تھے۔ وہ بہت اطمینان سے کام کرتے تھے، اپنے شکار کو ذرا بھی بھنک نہیں لگنے دیتے تھے۔ کئی بار تو لوگ ٹھگوں کے ڈر سے ہی اصلی ٹھگوں کو شریف سمجھ کر ان کی گرفت میں آجاتے تھے۔

ٹھگوں کے سردار عام طور پر پڑھے لکھے عزت دار آدمی کی طرح دکھائی دینے والے لوگ ہوتے تھے اور باقی اس کے طرح طرح کے کارندے۔

فلپ میڈوز ٹیلر کی کتاب ’کنفیشنز آف اے ٹھگ‘ میں امیر علی خاں نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کیسے وہ بڑے سیٹھوں اور مالدار لوگوں سے ضرورت کے حساب سے کبھی کسی نواب کے سپاہ سالار کی طرح ملتا تھا، کبھی مولوی کی طرح تو کبھی یاتری کا روپ دھار کر پنڈت کی طرح۔

امیر علی خاں نے بتایا کہ ٹھگوں کے کام بٹے ہوئے تھے۔ ’سوٹھا‘ گروہ کے سب سے سمجھدار رکن، لوگوں کو باتوں میں پھنسانے والے لوگ تھے جو شکار کی تاک میں سرائوں کے آس پاس منڈلاتے تھے۔ وہ آنے جانے والوں کی ٹوہ لیتے تھے، پھر ان کے مال اسباب اور حیثیت کا اندازہ لگا کر اسے اپنے چنگل میں پھنساتے تھے۔ امیر علی‌ خاں کے گروہ کا سوٹھا گوپال تھا جو ‘بہت ہوشیاری سے اپنا کام کرتا تھا۔‘

شکار کی پہچان کرنے کے بعد کچھ لوگ اس کے پیچھے، کچھ آگے اور کچھ سب سے آگے چلتے۔ راستے بھر دھیرے دھیرے کر کے ٹھگوں کی تعداد بڑھتی جاتی لیکن وہ ایسا ظاہر کرتے جیسے ایک دوسرے کو بالکل بھی نہیں جانتے اپنے ہی لوگوں کو جتھے میں شامل ہونے روکنے کا ناٹک کرتے تھے تاکہ شک نہ ہو۔ یہ بہت صبر کا کام تھا، ہربڑی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

امیر علی خاں نے ٹیلر کو بتایا تھا کہ کئی بار تو ہفتہ دس دن تک صحیح موقعے کا انتظار کیا جاتا تھا۔ اگر کسی گربڑ کا اندیشہ ہو تو واردات ٹال دی جاتی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp