پاک بھارت تعلقات اور نواز و عمران حکومتیں


نواز شریف کی الیکشن کیمپین ( 2013 ) کے منشور کا ایک مرکزی و زریں نکتہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور خطے میں امن کا دیرپا قیام تھا۔ یہ ان کا لا اُبالی بخار تھا نہ ہی بے وقت کا راگ، بلکہ بطور اسٹیٹسمین یہ ان کا سوچا سمجھا اور دیرینہ خواب تھا۔ اپنی پہلی حکومت کے دوران روس سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر تعلقات، موٹر وے ہو یا آخری حکومت کے دوران سی پیک منصوبہ، یہ سب پاکستان کو دنیا سے جوڑنے کے ان کے دیرینہ خواب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس صدی کی ابتداء سے قبل ہی انہوں نے جان لیا تھا کہ یہ ایشیا کی ترقی و عروج کی صدی ہے اور اس سے بھرپور استفادے کے لیے ہمسایوں کے ساتھ حالتِ امن میں ہونا بہت ضروری ہے۔

گزشتہ دورِ حکومت میں ( 1999۔ 1997 ) ان کی کاوشوں سے دنیا نے آخر ایک دن ہندو متعصب جماعت کے وزیراعظم اٹل بہار واجپائی کو مینارِ پاکستان کے سائے تلے نواز شریف کے ساتھ کھڑے دیکھا، جہاں دونوں ہمسایہ ممالک کے وزرائے اعظم نے باہمی دوستی اور علاقے کی ترقی کا سہانا خواب دیکھا۔ واجپائی کے اس اقدام کو متعصب ہندوؤں کی جانب سے پاکستان کے لیے سندِ قبولیت سے تعبیر کیا گیا۔ مگر امن کا یہ سفر حصولِ منزل سے قریب تر تھا کہ ایک عقلِ کُل کے ایڈونچر کی بھینٹ چڑھ گیا اور یوں دو وزرائے اعظم کا مشترکہ خواب چکنا چور ہو گیا۔

مطلوبہ ترقی کے حصول کے لیے ہمسایوں کے بیچ فاصلوں کو سمیٹنے کے لیے ایک بار پھر اقدامات اٹھانے سے قبل عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے نواز شریف نے اپنے دیرینہ مقصد کو باقاعدہ انتخابی منشور کا ایک ضروری حصہ بنایا اور تمام عوامی اجتماعات میں اپنے اس عزم کا اعادہ کیا اور عوام سے حمایت طلب کی۔ مگر الیکشن ( 2013 ) جیتنے کے بعد جونہی اس سمت میں پیش رفت کی کوشش ہوئی، حکومت کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا۔

نواز شریف پر طرح طرح کے فقرے کسے گئے۔ انہیں مودی کا یار، بھارت نواز اور پاکستان کا غدار کہا گیا نیز ان پر بیجا الزامات لگائے گئے کہ ان کے بھارت میں کاروباری مفاد ہیں۔ مگر ”وہ الزام ہی کیا جو ثابت کیا جا سکے“ کے مصداق آج تک کوئی بھی ایسا الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اور جونہی امن مذاکر ات کے لیے تاریخوں کے تعین کی کوشش کی، پاناما کا طوفان برپا کر دیا گیا۔ حکومتی سربراہ کی سیاسی پوزیشن دگرگوں ہوتا دیکھ کر بھارت نے مذاکر ات کی تاریخ دینے میں لیت ولعل سے کام لیا اور بالآخر مجوزہ مذاکر ات التواء کا شکار ہو گئے۔ اور کچھ عرصہ بعد ہی نواز کو پاناما کیس میں پراسرار طریقے سے اقامہ پر فارغ کر دیا گیا۔

بعدازاں عام انتخابات میں کامیابی کے بعد نئی عمران حکومت نے جب عجلت میں مذاکرات شروع کرنے کے لیے پہلی ملاقات کی تجویز دی تو پہلے تو مودی حکومت نے رضامندی ظاہر کی مگر بھارتی میڈیا کی تابڑ توڑ تنقید اور خود پر تنگ ہوتی سیاست سے پریشان مودی حکومت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی۔

حلف برداری کے موقع پر مودی کو بلانے یا نہ بلانے کے مخمصے سے ظاہر ہوتا تھا کہ بھارت سے بہتر تعلقات حکومت کا عزم نہیں۔ مگر پھر وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں پیشکش کر دی کہ ”بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے“۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ اس بار مودی حکومت پر برے دن آئے ہوئے تھے جو من مانے افراد کو نوازنے کے الزام میں زبردست تنقید کا شکار تھی۔

ایک تو بھارت کے ساتھ امن عمران خان کے منشور کا حصہ نہیں تھا۔ دوسرے یہ کہ سابق وزیراعظم کے امن مشن کو سبوتاژ کیا۔ جس کا بھارتیوں نے بغور جائزہ لیا اور امن کے لیے ان کی چاہت وہ بخوبی ملاحظہ کر چکے تھے۔ تیسرے یہ کہ نواز شریف کے برعکس اور عمران خان کی طرح مودی کی انتخابی سیاست کا محور بھی پاک بھارت باہمی دوستی نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ حلف لینے کے بعد پہلے خطاب میں ”مودی کے ایک قدم کے جواب میں دو قدم“ اٹھانے کی عمران خان کی آفر کے بعد انہوں نے خود پہل کیوں کی؟

پانچویں یہ کہ ملاقات کے لیے انہوں نے عجلت میں ایسا وقت چنا جب بھارت میں عام انتخابات ہونے کو تھے اور مودی پر بھارت کی سیاست ہر روز تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ اور یوں پاکستان کی پہل کو رد کر کے پاکستان سے امن مذاکر ات نہ کرنے کے اعلان سے مودی کو گھر پر سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم ہی کیوں کیا گیا؟ بھارتی انکار کے بعد عمران خان کے بیان کہ ”مودی چھوٹا آدمی ہے مگر بڑے منصب پر براجمان ہے“ نے سفارتی تعطل میں مزید بڑھاوا دیا۔

پاک بھارت تعلقات میں کوئی بھی مثبت پیش رفت کم از کم اگلے بھارتی الیکشن تک تو ممکن نہیں۔ کچھ عرصہ بعد آنے والی نئی حکومت ہی اس سلسلہ میں موجودہ نئی پاکستانی حکومت سے تعامل کر سکے گی۔ تب تک عمران خان دیگر معاملات کے علاوہ اندرون ملک معاملات سنبھالیں اور رہ گیا بھارت تو جان لیں کہ دہلی ہنوز دور است۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).