پاکستان کے مولوی ایک اندھی گلی میں پھنس گئے


ہوشیار! خبردار! گھروں میں محفوظ رہیں باہر مولوی نکلے ہوئے ہیں۔ آخر کیوں؟ ارے یہ محاورہ نہیں سنا کہ بعض موقع پرست مولوی بھی مفت کی شراب نہیں چھوڑتے ہیں۔ بات ہو سیاسی مفاد کی تو کیوں رہیں پیچھے۔ 31 اکتوبر 2018 کی تاریخ میں مولوی حضرات کو دوبارہ اپنی جرات و بہادری کا موقع مل گیا اور مذہب کی بنیاد پر سیاسی مفاد پرست مولوی حضرات مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کی خبر سن کر مشتعل ہوگئے۔ جس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا اور آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سنایا۔

اس فیصلے کے فوری بعد اسلام آباد سمیت ملک بھر میں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور سڑکوں کو بلاک کرنا شروع کردیا۔ تین روز تک پاکستان کے عوام گھروں میں محصور رہے کیونکہ گھر سے باہر جان و مال کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ پاکستان کے گلی کوچوں اور شاہراہوں میں خوف کی فضا قائم تھی۔ اس دن صبح علی کا امتحان تھا لیکن راستے بلاک تھے امتحان دینے سے قاصر رہا، علی کے والد کے گھر کا چولہا بھی ٹھنڈا رہا کیونکہ والد کے رکشہ چلنے سے ہی گھر کا چولہا جلتا تھا دوسرے دن جب بھوک و افلاس سے تنگ آکر والد کمانے کی غرض سے رکشہ لئے باہر نکلے تو مشتعل مظاہرین نے رکشہ کو ہی آگ لگادی اوراس طرح علی کی فیملی کے گھر کا واحد ذریعہ معاش بھی چھین گیا۔

اسی طرح ہزاروں ماٹر سائیکلیں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور کئی لوگوں کا ذریعہ معاش بھی چھینا گیا۔ ان مولوی حضرات نے معصوم بچے کیلا فروش کی ریڑھی سے تمام کیلے بھی مفت دام میں لوٹ لئے اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب اسلام کے ٹھیکداروں کو یہ فعل کیا زیب دیتا ہے؟ کیا اس فعل سے مسلمانوں کی عالمی سطح پر بدنامی نہیں ہوئی؟ ہم بحیثیت مسلمان اخلاقی اعتبار سے کس قدر گرچکے ہیں؟

اسلام ایک خوبصورت امن پسند مذہب ہے اور خدا کی قسم میرے محمد کی یہ دینی تعلیم نہیں تھی۔ مسلمان بالخصوص مولوی حضرات کے اس منافقانہ فعل سے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حضورکریم صلعم کے دین کے محافظ تو میدان جنگ میں بھی کافروں کے مال واسباب اور اہل و اعیال کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہوتے تھے۔ اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے جو غیر مسلم عورت کی بھی عزت کرنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام کے ٹھیکیداروں نے نبی کریم صلعم کے اخلاقی پہلو کوبھی نظرانداز کردیا۔

توہین رسالت کا معاملہ انتہائی احساس ہے۔ شہادتوں کا فیصلہ عدالت کے مروجہ اصولوں کے تحت کرنا ہوتا ہے۔ کس گواہ کی گواہی کو کس حد تک تسلیم اور کس گواہی کو بالکل رد کی جائے گی۔ عدالت سچ وجھوٹ میں تمیزکرنے کی مہارت رکھتی ہے۔ اگر الزام درست ہوتا تو سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں نے بری نہیں کرنا تھا۔ اگر عدالت فیصلہ کرتی کہ توہین ہوئی ہے مگر سزا نہ دیتی تو پھر اضطراب یا احتجاج کا جواز بنتا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر عدالت کسی کو بری کردے تو اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کوئی قانونی راستہ نہیں ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے یہ بھی قرار کیا ہے کہ ذاتی رنجشوں اور حتی کے جائیداد کے تنازعات میں بھی توہین مذہب کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ہچیس سالوں میں ساٹھ سے زائد افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ہے جن پر توہین مذہب کا الزام تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال اکتوبر کے اوائل میں پاس ہونے والے الیکشن ایکٹ 2017 میں شامل چند ترامیم پر تنازع کھڑا ہواجسے حکومت نے محض غلطی قرار دیا تھا۔

یہ ترامیم احمدیہ جماعت سے متعلق تھیں جنھیں حکومت پاکستان نے 1974 میں ایک آئینی ترمیم کے تحت غیر مسلم قراردے دیا تھا۔ حزب اختلاف کی جانب سے نشاندہی کے بعد حکومت پاکستان نے الیکشن ایکٹ میں ان شقوں کو پرانی شکل میں بحال کردیا تھا لیکن اس کے باوجود مذہبی جماعتوں نے حکومت پر الزام لگا کر پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہ آئے اور کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت اور جماعت احمدیہ سے متعلق شق کو جان بوجھ کر بدلا اور ایک بڑی سازش کا حصہ قرار دیا اور وزیر قانون زاہد حامد کو ذمہ دار قرار دیا اور استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے انھوں نے حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکی دی۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معصوم دانشور اور ناسمجھ بچے عمران خان کے 126 دن کے دھرنے کومولوی حضرات کے فیض آباد دھرنے سے تشبہیہ دے رہے تھے تو صاحبان عقلمندوں سے اس پہلو پر غور کرنے کی التجا ہے عمران خان کا دھرنا ملک کے ایک کونے میں تھاجس سے زندگی متاثر نہیں ہورہی تھی مگر فیض آباد کا دھرنا ملک گیر تھا۔ عمران خان کے مخالفین نے بھی نازک مذہبی ایشو پر خوب کھیلنے کی کو شش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔

اسی طرح ابھی تک ان مذہبی جماعتوں نے اپنی روش نہ بدلی مسیحی آسیہ بی بی کے فیصلے کو سڑکوں اور شاہراہوں پر شعلہ بیاں تقاریر کرکے مسترد کر رہے ہیں جبکہ ان کا کام عدالت میں آسیہ بی بی پر لگائے گئے الزام کو درست ثابت کرنے کے لئے ثبوت و شواہد پیش کرنے کے لئے متحرک ہونا چاہیے اس طرح مذہب کا استعمال کرکے سیاسی مفاد کا حصول مذہبی سیاسی جماعتوں کا حسب روایت وطیرہ بن چکا ہے اور مذہبی سیاسی قیادت ایک اندھی گلی میں پھنس گئی ہے۔

اگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر دینی سیاسی قیادت نے سیاسی سمجھداری اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا تو لگ ایسا ہی رہا ہے وہ بھی گم ہوجائے گی۔ اپنی بات حکومت اور عوام تک پہنچانے کے لئے متبادل ذرائع پر بھی غور کرنا چاہیے اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بہر حال آج ملک میں دینی جماعتیں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں، لبرل میڈیا ان کا مسخ چہرہ عوام کے سامنے پیش کررہا ہے لیکن اس میں قصور صرف میڈیا نہیں ہے بلکہ غلطی دینی جماعتوں کی بھی ہے۔ اب سولو فلائیٹ کا وقت نہیں ہے ورنہ اندھی گہری کھائی ان کا انتظار کررہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).