عطا الحق قاسمی اور میرا مستقبل


ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے معروف کالم نگار عطا الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی اور چیئرمین پی ٹی وی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، انہیں کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا ہے۔عطا الحق قاسمی کو گذشتہ دورِ حکومت میں سرکاری ٹی وی چینل، پی ٹی وی کا ایم ڈی تعینات کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے 12 جولائی کو ایم ڈی پی ٹی وی کی تقرری پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عطا الحق قاسمی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے کسی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں بن سکتے۔ عدالت نے حکومت کو مستقل بنیادوں پر ایم ڈی پی ٹی وی مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ نے عطا الحق قاسمی کو تنخواہ اور مختلف مراعات کی مد میں آنے والے 19 کروڑ 78 لاکھ روپے کے اخراجات کی رقم سرکاری خزانے میں واپس جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

فیصلے کے مطابق، اخراجات واپسی میں سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم کے سابق سیکریٹری فواد حسن فواد کو اپنے اپنے کردار کے مطابق حصہ ڈالنا ہو گا۔
سپریم کورٹ نے عطا الحق قاسمی کی تقرری کا 48 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جو کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عطا الحق قاسمی کی تقرری میں پرویز رشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد نے قانونی ذمہ داری ادا نہیں کی۔

فیصلہ سامنے آنے کے بعدادبی حلقوں اورسوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہو چکی ہے ، قاسمی صاحب کے مخالفین، ناقدین اور دوست احباب سب کاردعمل کالموں اور مذمتی پوسٹوں کی صورت میں سامنے آیا۔ میں نے سب کا بغور مطالعہ بھی کیا ہے۔ قاسمی صاحب کی ریگولر قاری بھی ہوں۔ ان پر ایم فل کا ریسرچ تھیسس کرنے والے والے ایک دوست مظہر کلیار سے ان کی سیاسی وابستگی کو لیکر کئی مرتبہ بحث بھی ہوئی تھی۔

جس کا لب لباب یہ ہے کہ ادب کی تاریخ میں ادیب کی سر پرستی کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے اورنہ ہی قاسمی صاحب کوئی پہلے شاعر یا ادیب ہیں جن پر بااثر سیاسی قوتوں کا ہاتھ رہا، غالب، میر اور اس دور کے تمام اہم شعراء کرام کی اعلی گھرانوں کی جانب سے سرپرستی کی جاتی تھی ، وظیفہ لگا ہوا ہوتا تھا ۔مگر تب ادب اور ادیب کی عزت تھی مگر آج کا معاشرہ اپنا یہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے تہذیب ، تمیز اور ادب سے نا بلد ہے۔

میں ملیحہ سید کوئی بہت بڑا نام نہیں مگر اللہ کا شکر ہے کہ ایک پہچان ضرور ہے۔ دوسری جانب میری قابلیت اور صلاحتیوں کو کوئی چیلنچ نہیں کر سکتا اور نہ ہی میں کسی عدالت کو یہ اختیار دے سکتی ہوں کہ وہ میرے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ میرا مقام اللہ کے کرم اور میری محنت کا مرہون منت ہے اس میں کوئی جج اور عدالت شریک نہیں تھی جبکہ عطا ء الحق قاسمی تو ایک بہت بڑا نام ہے، انہوں نے قلم کا طویل سفر کیا ہے، ان کی تحریروں میں ہر رنگ کی چاشنی موجود ہے۔ وہ اپنے ارد گرد رہنے والوں کے لیے فرعون نہیں بلکہ ایک مہربان استاد کی طرح ہیں کہ ان سے ایک بار ملنے والے ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ میں یوں کہوں تو زیادہ بہتر ہے کہ عطاء الحق قاسمی اردو ادب کا وہ ٹرینڈ ہے جس کی پیروی کرنا لوگ اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔

ان کے کالم، سفر نامہ ، شاعری مزاح نگاری سب نے مل کر ایک عہد کو تشکیل دیا اور وہ ہے ”عہدِ قاسمی”۔ جس میں آپ بھی ہیں، میں بھی ہوں ۔یہ پی ٹی وی کیا ہے ؟ سرکاری ٹی وی چینل، جس کا مقصد خبر رسانی کے ساتھ ساتھ مثبت تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے ۔ اس کی لگامیں اگر قاسمی سر جیسے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہوں گی تو کیا کوئی فرشتہ آ کر اس کی باگ دوڑ سنبھالے گا؟ یا پھر حلقہ خاکیت اور بیورہ کریسی کا کوئی سرانڈ زدہ، سڑا ہوا بڈھا آ کر نیوز لکھنا اور سیاسی امور بارے لیکچر دے گا، پالیساں بنائے گا؟ نہیں صاحب یہ ریڈیو، ٹی وی تو قلم کاروں اور فنکاروں کی دنیا ہے ، یہاں تو عطا ء الحق قاسمی جیسے قلم کے مزدور ہی چاہیں ،آپ جو مرضی کر لیں، یہ سچ نہیں بدل سکتے۔

ادبیوں اور استادوں کے بارے میں کئے گئے پاکستانی عدالتوں کے فیصلے ثابت کر رہے ہیں کہ اس قوم کو شعور کی آبیاری کرنے والے استاد اور ادیب نہیں چاہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے والے خادم حسین رضوی درکار ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ عدالتوں کے ساتھ مل کر ایک ہی بار قلم ، کتاب اور قندیل پر پابندی لگا دیں، ہاں نہ یہ استاد اور ادیب وشاعر معاشرے کی وہ قندیلیں ہیں ، جن کے قلم سے روشنی پھوٹتی ہے اور شعور کے جگنو اندھیری راتوں میں راہبری کرتے ہیں۔ معاشرے میں شراب ، چرس اور ناچ گانے کوآزادی دے دی جائے ۔
آج جو ادبی چہرے اور قلم کار عدالت کے اس فیصلے کودرست قرار دے رہے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ ہوا کبھی کسی کی نہیں ہوئی، آج قاسمی صاحب تو کل ہماری باری ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اس فیصلے کی جتنی بھی مذمت ہو سکتی ہے کریں۔ یہ کام آپ نے عطا ء الحق قاسمی کے لیے نہیں کرنا، یہ آپ نے اپنے لیے کرنا ہے، اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو یقین کریں، آپ کو اپنے قلم کی طاقت پر، اپنی ذات کی سچائیوں پر اعتبار ہی نہیں۔ تو صاحب پھر کاہے کو قلم تھامے بیٹھے ہیں، اٹھیں جائیں اور جا کر ریڑھی لگا لیں ، کل بھی تو لگانی ہی ہے نہ۔

اور قاسمی سر معافی چاہتی ہوں ، آپ نے بہت غلط کیا ، بنیادی طور پر ہم سب لکھنے والوں کی، سیاسی شعور رکھنے والوں کی تربیت ہی غلط ہے ۔ ہمیں تو کسی گاوں کی ماسی برکتے اور بابا رحمتے ہونا چاہے تھا، جب چاہتے کسی کی پگڑی اچھالتے، جب چاہتے ، گندی گندی گالیاں نکالتے اور پھر جا کر نمبردار کی گود میں جا بیٹھتے۔ ہم نے غلط راستہ اپنا لیا ، اب اس کی سزائیں ہم بھگتیں گے، آج آپ کی تو کل میری باری ہے۔ معذرت قاسمی صاحب میں اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتی ، یہاں تک آ کر میرا دل کرنے لگا ہے کہ میں مولوی خادم حسین رضوی بن جاوں اور قانون کی چار کتابیں پڑھ کر تخلیقی صلاحیتوں کا، جو منجانب اللہ ہیں، مذاق بنانے والوں کو خوب رگڑا دوں ،اتنا جتنا ممنوعہ ویڈیو میں ہم نے سنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).