پرانے لوگ اور ان کے روگ


وہ بھی کیا زمانہ ہوتا تھا، جب لوگوں میں شرم و حیا ہوتی تھی۔ کیا دن تھے وہ بھی، جب سادہ ماحول اور صحت بخش غذائیں ہوا کرتی تھی۔ اب تو کوئی حال ہی نہیں، بڑوں کا احترام، حیا، سادگی تو جیسے اجزائے ممنوعہ ہوگئے۔ ہم بھی تو جوان ہوئے تھے، نہ کبھی موبائل، ٹیبلٹ جیسی آفت کا سنا نہ دیکھا ہمارے زمانے میں تو اتنی برائیاں نہیں ہوتی تھیں، ہمارے دور میں تو تصور بھی نہیں تھا کہ لڑکی منہ پھاڑ کے اپنے حق کی بات کرے۔

یہ اور اس طرح کے بہت سے طنز میں بھیگے تیر آپ سب کی سماعتوں پر سے ہو کر گزرتے رہتے یا رہے ہوں گے۔ ہمارے معصوم اور قابلِ احترام بزرگوں کے یہ گلوے شکوے ان کے بڑھاپے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ عارضہ خاص طور پر ہمارے متوسط و سفید پوش طبقے کو لاحق ہے۔ اور وہ ایسے معصوم سے شکوے کرنے پر حق بجانب بھی ہیں۔ بھلا گھروں کی چھتوں پر ڈش کے تار لٹکائے، گھر کے اندر رکھے وی سی آر پر انجمن، نور جہاں، وحید مراد و دیگر کے رومانوی اندازوں سے لطف لیتے ہوئے انہوں نے بھلا کبھی سوچا ہوگا کہ ان کی آنے والی نسلیں، کیبل، انٹر نیٹ پر کم لاگت میں ہر روز ایسی تفریحات سے مسفید ہوسکیں گی؟

حُقّے کو اپنے کشادہ ”ویہڑے“ میں پوری آن بان سے رکھے اور خود بید کی بنی چارپائی پر پوری شان سے بیٹھے چُس لیتے ہوئے ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ آنے والے دور میں یہ نشہ جدت اختیار کرکے صحت اور بیماری دونوں کو قابو کرسکے گا۔ اپنے دور کی گھریلو تقریبات میں کسی صفیہ، شاہدہ یا پا منّو اور فلاں ڈھمکاں سے نین مٹکے اور پھر اگلے چھ ماہ بعد کسی اور خالہ یا پھوپی زاد سے بیاہ رچاتے انہیں یہ خیال بھی چھو کر نہ گزرا ہوگا کہ ان کی جنریشن چوری چھپے افیئر چلانے کے بعد بالآخر شادی بھی اسی سے کرنے کی پہلے ضد اور پھر جرات کرے گی۔

نیز کہاں تک سنیں گے، کہاں تک سنائیں۔ تاہم قدامت پسندی کی یہ ریت صرف دیہاتی بزرگوں تک محدود نہیں۔ بہت سے سو کالڈ مہذب خواتین و حضرات کی وسیع النظری سے بھی ہمارا پالا پڑچکا ہے۔ علاوہ ازیں ایک معروف مذاحیہ ٹی وی شو پر تو اکثر تین چار لوگ مختلف طرح کے گیٹ اپس میں پرانے دور کاروگ پالتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ اینکر پرسن خود میک اپ میں لتھڑے ہوئے جدید تراش خراش کے لباس میں یوں آراستہ ہوتے ہیں جیسے ابھی کسی قریبی دوست کی دعوتِ ولیمہ پر روانہ ہونے لگے ہوں۔

ایسے میں بے اختیار جی چاہتا ہے کہ ان سے پوچھا جائے کہ اپنے شو کے سیٹ تک سفر وہ کسی معیاری گاڑی میں کرنے کی بجائے تانگے یا گدھا گاڑی میں بیٹھ کر کیوں نییں کرتے۔ کیونکہ جدید گاڑیاں تو فضول خرچی اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کے دور میں پرانے وقتوں کی نسبت نت نئی بیماریاں متعارف ہو رہی ہیں، یا وہ بیماریاں جو پہلے شاذ ہی کسی کو ہوتی تھیں۔ اب ہر چوتھا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔

مگر اس میں آپ کی نوجوان نسل کا قصور نہیں یہ ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور نئی جہتوں نے ہر خاص و عام کو فوائدو نقصان سمیت اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تاہم آپ کے دور میں بھی وہ سب کچھ ہوتا رہا ہے جسے سن اور دیکھ کر اب آپ یوں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں، جیسے آپ کے زمانے میں صرف اور صرف نیک بیبیوں اور پاک دامن مردوں کا دور دورہ تھا۔ حالانکہ چور، زانی، ریپسٹ، گے، لیزبین، رشوت خور، سود خور، نشئی اور وغیرہ وغیرہ یہ سب آپ کے دور میں بھی موجود تھے۔

خواتین تب بھی ہر طرح کی ہوتی تھیں، با حیا بھی اور بے حیا بھی۔ مردوں کی بھی ہر قسم ہوا کرتی تھی۔ عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے بھی ہوتے تھے اور اس کی جنت جتنی قدر جاننے والے بھی۔ فرق بس تناسب کا ہے جس کی بڑی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ آبادی زیادہ ہوئی تو ہر اچھے برے کام کا تناسب بھی بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ ہمارا میڈیا ہے تب بُرا کام چُھپ جاتا تھا۔ اب میڈیا سب کچھ ایکسپوز کردیتا ہے۔ جس کے فوائد و نقصان یکساں ہیں۔

طلاق کی شرح اس لئے بڑھ گئی ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو شعور آچکا ہے۔ دونوں کو اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی آتی ہے۔ تاہم کچھ پہلوؤں پر اپنے محترم بزرگوں کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔ جیسے برائی کا پوشیدہ نہ رہنا، وقت سے برکت اٹھ جانا، طمع اور مادہ پرستی کا درندگی کی حد تک بڑھنا۔ لیکن یہ سب تلخ حقائق ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پہلے کسی نے جھوٹ بولا ہے تو اس کی وجہ اس کے دل سے ایمانداری ختم ہوئی پھر دوسرے شخص کا اس پر سے اعتبار بھی اٹھ گیا اور یوں نفرت کا سلسلہ چل نکلا۔

یہی وجہ ہے کہ ان منفی رویوں کے تناسب میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے۔ لیکن آج کے نوجوان کے شعور، آگہی، معاملہ فہمی کو اس کی بد تمیزی، بے صبری اور نافرمانی گرداننا زیادتی ہے۔ کیونکہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس لیے کسی بھی فرد کے غلط فیصلے کا ذمہ دار وہ اکیلا نہیں ہوسکتا۔ یہاں یہ سب بیان کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ہماری ساری یوتھ بہت تربیت و تہزیب یافتہ ہے، یا وہ جو کچھ کر رہی ہے وہ ہر طرح سے قابلِ قبول اور قابلِ وضاحت ہے بلکہ عرض یہ ہے کہ جو بیج جس نیت اور جتنی محنت سے آپ نے بویا، اسی مناسبت سے آپ کو پھل مل رہا ہے۔

کچھ عمل دخل آلودہ پانی (غیر ملکی طاقتوں اور ثقافتوں کا غلبہ) کا ہوسکتا ہے۔ مگر اس مسئلے سے بھی ہم مل کر نمٹ سکتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہمارے بزرگوں کو چاہیے کہ خدارا اپنی نئی نسل کو انڈر ایسٹیمیٹ اور ذلیل کرنے کی بجائے کھلے دل سے نوجوانوں کی ترقی قبول کریں۔ ہاں البتہ اپنے تجربے کی گھاٹ سے نئی پود کو تربیت اور اعتماد کا پانی پلانا بھی نہ بھولیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).