تخت لاہور سے چھٹکارا آخر کیوں؟


تخت لاہور کا نام سنتے ہی فوراً دماغ میں نا انصافی، گورننس کا غیر منصافانہ رویہ ذہن میں آجاتا ہے۔ لاہور جسے میاں شہباز شریف نے پیرس بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ میاں صاحب اپنے دعوے پر کتنا پورے اترے ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب کے بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ لاہور پر لگا دیا گیا۔ لاہور میں کبھی سپیڈو بس، میٹروبس تو کبھی اورینج ٹرین جیسے منصوبے شروع کر دیے گئے۔ خادم اعلیٰ صاحب نے لاہور کی ترقی پر اتنا زور دیا جیسے وہ صرف لاہور کے خادم اعلیٰ ہوں۔

اگر لاہور کو کچھ لمحے کے لئے سائیڈ پر رکھ دیا جائے۔ تو آپ کو صوبے کے باقی اضلاع کی ترقی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کے ساتھ ہر دور میں زیادتیاں ہوتی آ رہی ہیں۔ یہ بات بھی کسی سے چھپی نہیں جنوبی پنجاب کے لوگوں کا پاکستانی سیاست میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ پانچ دفعہ وزرائے اعلیٰ جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے کے بعد پسماندہ علاقے کی محرومیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ اقتدار کی کرسی پر سبکدوش ہونے کے بعد اکثر ان کے منہ سے یہ شعر سننا پڑتا ہے۔

ناحق ہم مجبوروں پہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بد نام کیا

جنوبی پنجاب کے لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک محروم ہیں۔ جنوبی پنجاب میں انسان اور جانور ایک ہی تالاب میں پانی پینے پر مجبور ہیں۔ وہاں کے لوگوں کے لئے نہ کوئی ہسپتال دستیاب ہے نہ معیاری سکول۔ ویسے تو پچھلی حکومتوں نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ پنجاب کا ہر بچہ سکولوں میں داخل ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے جنوبی پنجاب کے نونہال بچے جن کو حکومتی دعوؤں کے مطابق سکولوں میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ لیکن وہ بھیڑ بکریاں چرانے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔

وسائل کی غیر منصافانہ تقسیم ہونے کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے لوگ علیحدہ صوبہ مانگنے کے لئے نکل پڑے ہیں۔ ویسے تو جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ایک درینہ مطالبہ ہے لیکن اس مطالبے نے شدت اس وقت اختیار کی جب پچھلی حکومت میں جنوبی پنجاب سے تعق والے حکومتی رہنماؤں نے اسمبلی سے استعفی دے کر علیحدہ پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ بعد میں اسی پارٹی کا نام جنوبی پنجاب صوبہ محاذ رکھ دیا گیا۔ اس پارٹی میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے سیاسی قدکاٹھ رکھنے والے لوگ شامل ہو گئے۔ اس پارٹی کو وجود میں آئے ہوئے ابھی تک بمشکل ایک مہینہ ہوگیا تھا۔ کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کر دیا گیا۔ عمران خان نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں کو اس وقت یقین دلایا۔ کہ پی ٹی آئی حکومت میں آتے ہی سو دن میں جنوبی پنجاب صوبے کا قیام عمل میں لائے گی۔

اسی نعرے کی بنا پر جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کو خاصی پزیرائی ملی اور جنوبی پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح اکثریت حاصل کر لی۔ وزیراعظم بننے کے بعد جنوبی پنجاب کے باسیوں کی نظریں عمران خان سے جڑی ہوئی ہیں۔ سو روز مکمل ہونے میں ابھی تیرہ دن باقی ہیں۔ لیکن علیحدہ صوبے کے قیام کے حوالے سے حکومتی ٹیم کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے جو نئے صوبے کے قیام کے لئے ضروری ہے۔

اگر پی ٹی آئی حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دوسری بڑی جماعتوں کو علیحدہ صوبے کے قیام کے حوالے سے رضامند کر لے تو علیحدہ صوبہ کا قیام ناممکن نہیں ہے۔ یہ بات کچھ لمحوں بعد واضح ہو کر سامنے آجائے گی کہ یہ حکومت کس طرح اپنے وعدے پر پورا اترتے ہوئے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو نئے صوبے کے حوالے سے خوشخبری دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).