ماں کی نصیحت


(آج) کی ماں کی نصیحت، بیٹی کے نام۔ ‎پیاری بیٹی! اب زمانہ بدل گیا ہے، اکیسویں صدی کی عورت مرد کے برابر ہے، کسی کے آگے جُھکنے کی ضرورت نہیں، عورت ہرگز کمزور نہیں، تم کو کسی کا غلام بننا نہیں، بنانا ہے۔ میری یہ سنہری باتیں پلّو سے باندھ لو شادی کے بعد بڑی کام آئیں گی۔ ‎سسرال جاتے ہی اپنا سکہ جما لینا، گھر کے کام ‎کاج تمہاری ذمہ داری نہیں، اگر کبھی کرنا پڑے تو صرف اپنے شوہر کے کرنا۔ ‎شوہر کی مالی حیثیت ہو یا نہیں مگر تمام کاموں کے لیے ماسی لگوانا۔ ‎پہلے ہی بتا دینا کہ میں یہ سب نہیں کرسکتی۔ آخر بیوی کی ضرورت اور آسائش کا خیال رکھنا اُسی کا فرض ہے۔ ‎

کھانا بنانا ہو صفائی کرنی ہو خواہ برتن دھونے ہوں، روزِ اول یہ باور کرا دینا کہ میں نے کبھی اِن چیزوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ مجھے نہیں آتا، اگر ایک بار کوئی کام صحیح کرلیا تو وہ تمہاری ذمہ داری بن جائے گی۔ ‎بلکہ صبح دیر سے سو کر اُٹھنا تاکہ تب تک گھر کے آدھے کام تو ہو مکمل ہو چکے ہوں گے۔ ‎مہمان آئیں، گھر میں دعوت ہو یا کوئی تہوار، تمہیں بیمار ہو جانا ہے۔

رمضان میں سحری افطاری کی ذمہ داری بھول کے بھی نا لینا۔ ورنہ زندگی جہنم ہو جائے گی۔ ویسے بھی بہو بیاہ کے لائے ہیں کوئی نوکرانی نہیں۔ ‎اپنے آپ میں بھاری بھرکم رہنا کسی کو خاطر میں نا لانا اس طرح عزت برقرار رہتی ہے۔ ‎اگر شادی شُدہ نندیں گھر آہیں تو کمرے سے باہر ہی مت آنا، آئندہ آتے ہوئے وہ سو بار سوچیں گی۔ ‎ اپنی ضرورت کی تمام اشیا کمرے میں ہی رکھنا ‎بلکہ بِلا ضرورت کمرے سے باہر مت نکلنا۔ ‎شوہر سے بات منوانا تمہارا شرعی اور قانونی حق ہے۔

اگر سسرال والے سازگار ماحول فراہم کریں تو ٹھیک ورنہ تم بھی ان کے ہوش ٹھکانے لگانا۔ ‎اگر ساس ماں اور نند بہن جیسی بن سکے تو قبول (مگر یہ تو نا ممکن ہے ) اِس لیے تم بھی روایتی بہو بننا۔ دبنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ورنہ ہمیشہ تمہیں ہی سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ ‎اگر ساس سسر تنگ نظر ہوں یا کوئی پابندی لگانے کی کوشش کریں تو کسی ایک کی نا سننا۔ اُن کو اچھی طرح اپنے میکے کا ماحول سمجھا دینا ایڈجسٹ ان کو کرنا ہوگا۔

تم کیوں قربانی دو۔ ‎یاد رکھو وہاں ایسے راج کرنا جیسے اپنی ماں کے ہاں کرتی رہیں۔ لیکن جھُکنے کی ضرورت نہیں۔ جو تمہارا طرزِ زندگی رہا اُس کے مطابق زندگی گزارنا، تاکہ باقی افراد بھی اُسی کے پابند ہوں۔ ‎جیسا میں نے تمہارے باپ کو قابو کیا ویسے ہی تم نے اپنے شوہر کو قابو کرنا ہے۔ ‎اپنی بہنوں کو دیکھو کس طرح لگام ڈال کر رکھی ہے اپنے شوہروں کی۔ ‎ بس تم نے قدم جماتے ہی الگ گھر کا مطالبہ کرنا ہے، وگرنہ کوئی بہانہ بنا کر چولہا الگ کرنا، اس سے تمہاری زندگی آسان۔

‎یاد رہے تمہیں سسرال نہیں میکہ بسانا ہے۔ اس لیے ہفتے میں کم از کم تین دن بمعہ شوہر ضرور آنا ہے۔ اس طرح رعب رہتا ہے۔ کہ ہماری بیک پر کوئی ہے۔ ‎یہ بات ذہن نشین کرلو کہ بہو کو میکے آنے اور ماں کے گھر قیام کرنے کے لیے کسی کی اجازت درکار نہیں۔ ‎‎کسی ناچاقی کی صورت میں واپس آجانا میری بچی، کسی قسم کا ظلم زیادتی برداشت نا کرنا۔ ‎ تمہاری ماں باپ بھائی ابھی زندہ ہیں۔ اور شوہر اگر واپس بلائے تو اپنی شرائط پر ہی واپس سسرال جانا، جب تک شوہر ناک رگڑتا لینے نا آئے۔

بلا وجہ گھٹنے نہیں ٹیکنا۔ ‎بس تمہیں شوہر کواپنے رنگ میں رنگنا ہے اور اس کو رام کرنا ہے۔ ‎خود کو ہرگز تبدیل نا کرنا۔ شوہر کو اعتماد میں لینا۔ ہر چیز اور فیصلہ اپنی مرضی سے کرنا، آخر گھر پہ حکمرانی تم ہی کو کرنی ہے۔ اِسی طرح گھر بستے ہیں، بیوی، بہو، بھابھی ہونے کے ناطے تمہارے بھی کچھ حقوق ہیں۔ ‎اسلام میں بیوی پرخاوند کے رشتہ داروں کی اطاعت کرنا واجب نہیں چاہے وہ ساس ہو یا سسر، یا پھر نند مگر اپنے شوہر کو یہ جتا دینا کے ہمارے احترام میں کوئی کسر نا چھوڑے۔

‎ ”امی تو کیا اسلام میں شوہر کے اوپر یہ فرض ہے کے وہ سسسرال والوں کو اہمیت دے؟ روز سسرال کے چکر لگائے؟ “۔ بیٹی نے سوال کر ڈالا۔
‎او ہو! اب کوئی دنیا داری نام کی چیز ہوتی ہے کے نہیں۔ آج کل کون اسلام کی پیروی کرتا ہے۔ اور ہمیں تو لڑکے کو مٹھی میں کرنا ہے۔ ‎ایسے ڈرامے دیکھو جو لڑکیوں کو جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ”بَلا“ دیکھو (ماں ازرائے مذاق) اگر اِن شیطانوں سے نمٹنا ہے تو تمہیں بھی ایک بلا ہی بننا پڑے گا۔

‎امی آپ اس کی تو فکر ہی نا کریں، آپ کی بیٹی کسی بَلا سے کم نہیں۔ ہاہاہا (اماں اور بیٹی کے قہقہے )
‎ارے باتوں باتوں میں وقت کا پتا ہی نا چلا، ایک بجنے کو ہے، مہمان آتے ہے ہوں گے۔ جا بچی ذرا باورچی خانے میں جاکر دیکھ کے بہو بیگم نے کھانا تیار کیا بھی یا خراماں خراماں ہاتھ چل رہا ہے۔ اور جھاڑ پونچھ ہوئی کے نہیں۔ اِس سے پھرتیلی تو وہ کام کرنے والی پروین تھی۔ وقت پر کام نمٹا دیتی۔ مگر یہ محترمہ صبح سے لگی ہیں۔

کاہل نا ہو تو۔ اوپر سے بخار کا ناٹک، (ماں بڑبڑاتے ہوئے )
‎امی کھانا (دیسی چائنیز ) گاجر کا حلوہ سلاد سب تیار ہے۔ ‎بیٹی نے بے پرواہی سے کہا۔ ‎اور وہ کشمیری چائے؟ ماں نے تیوری چڑھاتے پوچھا۔ ‎وہ تو صبح سے چڑھائی ہوئی ہی بھابھی نے۔ بیٹی نے بتایا۔ ‎

ہاں تو کون سا تیر مار لیا۔ بڑی بہو ہے۔ ساری لڑکیاں کرتی ہیں۔ شادی ہوگئی محترمہ کی، اب ناز برداریاں ختم۔ سسرال ہے یہ میکہ نہیں ویسے سچ کہوں تو اِس کی ماں نے اِسے کچھ بھی نا سکھایا۔ ساس نے بہو کو سناتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ‎اور بہو نے بخار میں تپتے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے دل میں کہا ”سچ! میری ماں نے مجھے کچھ بھی نا سکھایا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).