16 نومبر 1988 ء سے 16 نومبر 2018 ء تک کے 30 سال


تاریخ کا مسلمہ فیصلہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین مارشل لاء جنرل ضیاء الحق نے 4 جولائی 1977 ء کو لگایا تھا۔ آمریت کے دلدادہ اور قابض حکمران سے وطن۔ عزیز کی جان اس وقت ہی چھوٹ سکی جب 17 اگست 1988 ء کو ایک طیارہ حادثہ میں وہ امریکی سفیر سمیت ہلاک ہوا۔

کہنے کو تو سیاسی عمل سے خائف جنرل ضیاءالحق نے آئین کا حلیہ بگاڑ کر بادل نخواستہ فروری 1985 ء میں سرکردہ سیاسی جماعتوں کے بغیر انتخابات کروا دیے تھے لیکن 29 مئی 1988 ء میں ان اسمبلیوں کو بھی شخصی اقتدار کی قربان گھاٹ پر اتار دیا گیا۔ اس لئے پاکستان کے عوام کو جمہوریت کی بحالی 11 طویل سالوں کے بدترین مارشل لاء کے بعد آج کے دن یعنی 16 نومبر کو جماعتی بنیادوں انتخابات منعقد ہونے پر ہی ملی۔ تب سے آج تک جمہوریت کی یہ گاڑی مسلسل چل ہی رہی ہے اور ہر جمہوریت پسند و آزاد منش فرد کی یہی فطری خواہش ہے کہ یہ سلسلہ چلتا ہی رہے۔

کہتے ہیں کہ آمریت کے زیر اثر ایک تیزی سے ترقی کرتے ملک میں کسی بت تراش نے ایک دیوی بنائی۔ سفید مرمریں بدن پر تیکھے نقوش کھودے، قامت میں نخرا اور کاٹھ میں ایک غرور بھرا اور دیوی کو اٹھا کر بازار کے مرکزی چوک میں رکھ دیا۔

لوگ جمع ہوئے، سراپا ناز کے حسن اور اعضا کے توازن پر داد دی۔ داد و تحسین کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ کسی نے آواز لگائی۔ لوگو دیکھو، ”دیوی کی تو آنکھیں ہی نہیں“۔ لوگوں نے چونک کر دیکھا تو واقعی آنکھوں کی جگہ ہموار تھی۔ یعنی لوگ اعضاء کے توازن اور نقوش کی جادوگری میں اتنے کھو گئے تھے کہ انہیں آنکھوں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔

کسی نے ہانک لگائی، ”ارے ارے اس کے تو پاؤں بھی نہیں ہیں“ تو لوگوں کی نظریں بے اختیار دیوی کے قدموں میں آ گریں اور واقعی دیوی کے پاؤں بھی نہیں تھے۔ بت تراش نے پنڈلیوں کے فوراً بعد چیل کے لمبے لمبے بدصورت پنکھ تراش دیے۔

مجمعع میں سے آواز آئی، ”ارے اس کا دل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ تو سب کی نظریں سینے پر جا الجھیں۔ وہاں عین دل کے مقام پر ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ میں لوہے کا ایک بدصورت ٹکڑا تھا۔

لوگ سنگ تراش کی شدید مذمت کرنے لگے۔ جب لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے تو بت تراش نے اداس لہجے میں کہا، ”حضرات۔ یہ آمریت کی دیوی ہے جس کی اپنی آنکھیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ اپنے غلاموں کی آنکھوں پر راج کرتی ہے۔ لہذا ہر وہ شخص جو دیکھ سکتا ہو اور جس کی آنکھوں میں حیاء ہو وہ امریت کا پجاری نہیں ہو سکتا۔ آمریت کے سینے میں دل بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ ہر جمہوریت پسند اور آزاد منش کے لئے عذاب کی صورت مسلسل نازل رہتی یے۔ لہذا ہر وہ شخص جس میں رحم ہو، جو لوگوں کے دکھ دیکھ کر سینے پر بوجھ محسوس کرتا ہو وہ آمریت کو اپنا نجات دہندہ نہیں مان سکتا“۔

”اور حضرات“! ۔ سنگ تراش چند لمحے سانس لینے کے لئے رکا۔ لوگ ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ ”آمریت کے پاؤں بھی نہیں ہوتے یہ چیل کی طرح اڑتی ہوئی آتی ہے، جمہوریت کے پرندے کو اپنے بھدے مگر مضبوط پر مار کر گراتی ہے یا بہت خوفزدہ اور ڈرا ہوا رکھتی ہے۔ اپنے مقاصد پورے کرتی ہے۔ جب عوام اس کے خلاف اکٹھے ہو کر احتجاج کرتے ہیں تو یہ اپنے انہی بھدے پروں سے چیختی، چنگھاڑتی اور اڑتی ہوئی واپس اپنے پہاڑوں، جنگلوں میں چلی جاتی ہے، لیکن اپنے پیچھے تباہی کے ایسے نقوش چھوڑ جاتی ہے جنہیں مٹانے کے لئے 30 سال نہیں بلکہ 50 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).