لاہور کی چیلیں غضبناک کیوں ہو گئیں؟


چیل

ماہرین کے مطابق چیلوں کے شہریوں پر حملے کی وجہ لاہور کے مضافات بالخصوص دریائے راوی میں پھینکا جانے والا صدقے کا گوشت ہے

لاہور کی فضاؤں میں روز بروز چیلوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ چیلیں آپ کو لاہور کے بعض مخصوص مقامات پر بکثرت منڈلاتی نظر آئیں گی۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ان چیلوں کی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور بہت سے راہگیروں پر ان کی طرف سے حملے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔

راہ چلتے لوگوں کے سروں پر اچانک کہیں سے اڑتی ہوئی کوئی چیل آئی اور ان پر جھپٹا مار کر اڑتی بنی۔ بہت بار چیل کے ناخن شہریوں کے چہرے ماتھے پر نشان چھوڑ گئے۔ چیل کا شکار، قصاب کی دکانوں کے علاوہ بہت حد تک راہگیر اور موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں۔

لاہور میں نہر کے ساتھ ملحقہ سڑکوں، شاہراہوں مال روڈ، ٹاون ہال، محمود بوٹی، اور دریائے راوی سے ملحقہ علاقوں میں چیلوں کی کثیر تعداد ہے، مگر راوی پر شہر بھر سے زیادہ چیلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اہم گزرگاہ ہونے کے ساتھ یہاں ٹریفک کا بہاؤ بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔

راوی کے علاقے کی طرف جاتے ہوئے آپ کو دور سے فضا میں پتنگوں کی مانند اڑتی چیلیں دکھائی دیں گی۔ جونہی آپ پل پر پہنچتے ہیں، آپ ان چیلوں کو سروں پر منڈلاتا پائیں گے۔ یہاں سے گزرنے والے اکثر راہگیر چیلوں کے جھپٹوں اور ٹھونگوں کی شکایت کرتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شہری کا کہنا تھا ‘یہ چیلیں بچوں اور بڑوں دونوں کو پکڑتی ہیں۔ ان کے حملہ کرنے سے سر پر بھی چوٹ لگتی ہے، میرے بیٹے کو چیل نے بھی پکڑنے کی کوشش کی ہے جو میرے ساتھ موٹر سائیکل پر آگے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ماتھے پر چیل کا ناخن لگا۔’

زرمینہ ہر روز شخوپورہ سے لاہور فیکٹری میں کام کے لیے آتی ہیں۔ پل کے اس خاص حصے سے انھیں رکشے میں بیٹھ کر منزل مقصود تک جانا ہوتا ہے۔ زرمینہ بتاتی ہیں کہ چیلوں کے ان جھپٹوں کی وجہ سے کچھ لمحے کھڑے ہو کر رکشے کا انتظار بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ انھیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب کوئی چیل ان پر حملہ کر دے۔

چیلیں

راوی کے علاقے کی طرف جاتے ہوئے آپ کو دور سے فضا میں پتنگوں کی مانند اڑتی چیلیں دکھائی دیں گی

‘میں یہاں رکشہ لینے کے لیے رکتی ہوں، رکشہ آنے میں اکثر وقت بھی لگ جاتا ہے، دس سے پندرہ منٹ میں کئی بار چیلیں نوچنے کو آتی ہیں۔ متعدد بار یہ مجھ پر جھپٹی بھی ہیں جس سے ہاتھوں پر بھی زخم آئے ہیں مگر مجبوری ہے۔ روزگار کے لیے یہاں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔’

ناصر بھی یہاں سے اکثر گزرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘اکثر سر پر ٹھونگا مارتی ہیں، کبھی کمر اور بازو پر جھپٹا مارتی ہیں، پتہ نہیں کیوں یہ ایسا کرتی ہیں، یہ اتنی جلالی کیوں ہو رہی ہیں، میں سمجھنے سے قاصر ہوں شاید یہ بیچاری بھوکی ہیں۔ انھیں کھانے کو نہیں ملتا شاید۔’

چیل کیسا پرندہ ہے؟

محکمہ جنگلی حیات کے ڈائریکٹر حماد نقی خان کے مطابق چیل ایک شکاری پرندہ ہے۔

’پہلے ان کی جگہ بیابانوں میں ہوا کرتی تھی۔ مگر پھر آہستہ آہستہ شہر میں پھیلنے لگ گئیں اوردیہاتی علاقوں کے بھی شہروں میں شامل ہونے کے ساتھ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر بھی لگنا شروع ہوگئے۔ سو خوراک کے حصول کے لیے چیلوں نے مکمل طور پر شہروں کا رخ کر لیا جہاں انھیں محنت کیے بغیر شکار بھی ملنے لگ گیا۔

انھوں نے بتایا کہ جانور کی نفسیات میں یہ چیز شامل ہے کہ جہاں انھیں آسانی ملتی ہے وہ وہیں کا رخ کرتے ہیں۔

چیلیں ‘حملہ’ کیوں کرتی ہیں؟

چیلوں کے حملے کے حوالے سے عام لوگوں میں متفرق خیالات پائے جاتے ہیں۔ مگر عام لوگ چیلوں کے اس خاص رویے کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دراصل چیلیں حملے کیوں کرتی ہیں۔

محکمہ جنگلی حیات کے ڈائریکٹر حماد نقی خان کے مطابق چیلوں کے شہریوں پر حملے کی وجہ لاہور کے مضافات بالخصوص دریائے راوی میں پھینکا جانے والا صدقے کا گوشت ہے۔

راوی کے دونوں پلوں کے ساتھ ساتھ بنے فٹ پاتھ پر آپ کو درجنوں ایسے مرد اور خواتین کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کے ہاتھ میں ایسی ڈھیروں تھیلیاں ہوتی ہیں جن میں تین سے چار بوٹیاں موجود ہوتی ہیں۔ پل سے گزرنے والے لوگ یہاں رک کر یہ گوشت خرید کر بطور صدقہ دریا میں پھینک دیتے ہیں۔

پل کے ارد گرد بجلی کے مختلف کھمبوں پر چیلوں نے اپنے آشیانے بنا رکھے ہیں۔ جہاں سے ان کی تیز نظر راہگیروں کی ہر نقل و حرکت پر ہوتی ہے۔ جونھی کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی گوشت پھینکنے کے لیے رکتی ہے، چیلیں اڑتی ہوئی اس کی جانب لپکتی ہیں اور پھر فضا میں پھینکے جانے والے گوشت کو اچکنا شروع کر دیتی ہیں۔

چیل

حماد نقی نے بی بی سی کو بتایا: ’اس سرگرمی نے چیل جیسے پرندے کے مزاج میں جارحیت پیدا کر دی ہے اور اس کی طبیعت میں غصیلا پن پیدا ہو گیا ہے۔ انسانوں نے صدقے کے نام پر گوشت ڈال کر ان چیلوں کو خوراک کے حصول کے قدرتی طریقہ کار سے دور کر دیا ہے۔ اس لیے اب یہ خود خوراک کی تلاش کرنے کی بجائے انسانوں کی پھینکی گئی خوراک کھانا زیادہ پسند کرتی ہیں۔‘

حماد نقی کے مطابق ’بعض اوقات اگر انھیں خوراک ملنے میں تاخیر ہو جائے تو یہ انسانوں سے خود بھی چھیننے کی کوشش کرتی ہیں۔ زیادہ تر جھپٹنے کے کیسز ان لوگوں کے ساتھ بھی پیش آتے ہیں جو انھیں خوراک ڈالتے ہیں۔‘

ایسا لگتا ہے کہ صدقے کے نام پر پھینکے جانے والے گوشت نے چیل کے مزاج کو بدل دیا ہے۔ چیلوں کے ر ویے میں پیدا ہونے والی اس نمایاں تبدیلی کا خمیازہ بھی انسان کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور اب وہ ہر آنے جانے والے پر حملے کر رہی ہیں۔

حماد نقی نے مزید بتایا: ‘جب ان چیلوں کے انڈے دینے یا گھونسلے بنانے کا وقت ہوتا ہے تو یہ اور بھی خطرناک ہو جاتی ہیں اور ہر شخص پر حملہ کرتی ہیں۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب چیلوں نے براہ راست شہریوں پر حملہ کیا ہے۔’

راوی کنارے بسنے والی یہ چیلیں گوشت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا پیچھا کرتی، لڑتی، ایک دوسرے پر جھپٹتی اور حملہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ پل پر چلتے افراد ان کی غصیلی آوازوں سے بوکھلا جاتے ہیں۔

چیلوں کے ان حملوں اور ان کے رویے میں غضبناکی کے حوالے سے محکمہ جنگلی حیات کے پرندوں کے ماہر ڈاکٹر جمشید نے ایک تحقیقاتی مطالعہ بھی کیا ہے جس کے مطابق بھی چیلوں کے مزاج میں یہ سختی اور جارحانہ پن انھیں ڈالے جانے والے گوشت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

چیل

PA

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جمشید نے بتایا کہ چیل قدرتی طور پر کوڑا پھینکنے والی جگہوں پر پائی جاتی تھی۔ یہ پرندہ قدرتی طریقہ کار سے اپنی خوراک حاصل کرتا تھا۔ مگر گذشتہ کچھ عرصے سے ان کا یہ طریقہ کار بدل چکا ہے اور اس کی بڑی وجہ لاہور جیسے شہر میں پھینکا جانے والا صدقے کا گوشت ہی ہے۔

ڈاکٹر جمشید کے مطابق لاہور کے بہت سے علاقوں میں بنائی گئی ڈمپنگ سائٹس پر پھینکے جانے والے کوڑے نے بھی ان چیلوں کی آبادی میں اضافہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کوڑا ماحولیاتی نظام میں بھی عدم توازن پیدا کر رہا ہے اور چیلیں اسی ماحولیاتی نظام کی ایک اہم رکن ہیں اور ان کے رویے کو بدلنے سے ہم ماحولیاتی نظام کو بھی بدل رہے ہیں۔ لہٰذا سولِڈ ویسٹ مینیجمنٹ کو اس حوالے سے خصوصی کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ایسے پرندوں کی آبادی ایک مخصوص حد سے تجاوز نہ کرے۔

چیلیں بڑھنے سے چھوٹے پرندوں میں کمی

ڈائریکٹر جنرل محکمہ جنگلی حیات نے بتایا کہ شہر کی فضاؤں میں چیلوں کے اضافے سے چھوٹے پرندوں کی تعداد بھی کم ہونے لگی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ شکاری پرندے چھوٹے پرندوں کو گھونسلے بنانے نہیں دیتے۔ ان کے انڈے توڑ دیتے ہیں۔ ان پر بھی حملہ کر تے ہیں۔ چیلوں کے بڑھنے سے طوطے، مینا، کوئل، ہد ہد اور دوسرے نازک پرندے اب نایاب ہو چکے ہیں اور اب فضا میں ان کی جگہ صرف چیلوں نے لے لی ہے۔’

ایک طرف ہم ان چھوٹے پرندوں کے گھروں کو تباہ کر رہے ہیں اور دوسری جانب ہم گندگی پر پلنے والے پرندوں کو آسانی دے رہے ہیں، ان کو جگہ دے رہے ہیں، انکی آبادی بڑھا رہے ہیں۔

‘ایسے لینڈ اسکیپ کو جس میں چیلیں ہوں آپ ڈراؤنی فلم کی شکل تو دے سکتے ہیں مگر ایک اچھے شہرکی شکل نہیں دے سکتے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp