چینی اینکر اور ہمارے اینکر


جب صدیوں پہلے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا تو پہلا سبق یہ سکھایا گیا تھا کہ صحافی کا اور میڈیا کا کام خبر دینا ہوتا ہے، خود خبر بننا نہیں۔ لیکن ہر پیشے کی اخلاقیات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

میڈیا اب اتنا پھیل چکا ہے کہ خود میڈیا اور صحافی بھی ہر وقت خبروں میں رہتے ہیں۔

آج کل بھی ایک انگریزی اخبار کے صحافی پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے لیکن زیادہ خبر گرم یہ ہے کہ کئی سینیئر اور مستند صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل سینکڑوں جونیئر صحافیوں اور میڈیا سے منسلک دوسرے محنت کشوں کو فارغ کیا جا چکا ہے لیکن ان چھوٹے لوگوں کی کوئی چھوٹی خبر بھی نہیں بنی تھی۔

میڈیا مالکان دہائیاں دے رہے ہیں کہ لٹ گئے، مر گئے۔ انگریزی کی اصطلاح ‘کیش کرنچ’ کا بار بار ذکر کیا جا رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی آپ کو اپنا کھیسہ الٹا کر کے دکھا دے کہ یہ دیکھو ہماری جیب بالکل خالی ہے۔

یقینا معیشت کی بدحالی اور حکومت کی تنگدستی کا میڈیا پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ لیکن میں نے اپنے ملک کے سیٹھوں کو جن میں میڈیا مالکان بھی شامل ہیں یہ کہتے کبھی نہیں سنا کہ ہمارے مالی حالات آج کل ٹھیک ہیں۔

چند سال پہلے جب میڈیا پر اچھے دن تھے ایک مہربان میڈیا مالک مجھے لنچ پر ایک مہنگے ریستوراں لے گئے۔ پورے کھانے کے دوران انھوں نے اپنی مالی زبوں حالی کا اتنا رونا رویا کہ مجھے لگا کہ کہیں مجھ سے قرض ہی نہ مانگ لیں۔ میں نے آخر نیم دلی کے ساتھ کھانے کا بل دینے کی آفر کی جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ تب سے میں میڈیا مالکوں سے اور وہ مجھ سے دور ہی رہتے ہیں۔

پاکستان پر جب بھی کوئی مسئلہ پڑتا ہے ہم ایک نظر سے سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور دوسری نظر سے چین کی طرف۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے میڈیا اور صحافیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے اپنے طریقے بنا رکھے ہیں۔

سعودی عرب کے طریقے سعودی عرب ہی جانے۔ اتنی بھی کیا سنسرشپ کہ صحافی کی بائی لائن تو غائب کرو لیکن اس پر یہ بھی کر گزرو کہ پوری دنیا چیختی رہ جائے لیکن صحافی کی لاش بھی نہ ملے۔

چین چونکہ ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے تو انھوں نے اس کا ایک اور حل نکالا ہے۔ چین نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ایک ایسا اینکر تیار کیا ہے جو مستقبل کے سارے صحافتی چیلنجز سے نمٹ سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی پیداوار ایک ایسا اینکر جسے نہ سوٹ ٹائی کی ضرورت نہ میک اپ کی۔ نہ تنخواہ مانگے، نہ چھٹی، نہ کسی سے جھگڑے نہ کسی کو غدار کہے۔ نہ ہی کسی قدرتی آفت کا شکار ہونے والوں کے منھ میں مائیک دے کر پوچھے کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ نہ ہی بادل آتے ہی شور مچائے کہ عوام بہت انجوائے کر رہی ہے۔

پتہ نہیں چین میں خبریں دیکھنے والے اس مصنوعی ذہانت والے اینکر کے ساتھ کیسے گزارہ کریں گے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ہمالیہ سے اونچے اور بحیرۂ عرب سے گہرے اپنے چین سے پرانے رشتے کا بھرم نبھائے اور انھیں اینکر بنانے کی اپنی ٹیکنالوجی فراہم کرے۔

چین نے ہر برے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ایسے وقتوں میں بھی جب پاکستان خود پاکستان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ سی پیک کے نام پر شاید ساٹھ ارب ڈالر اب تک خرچ کر چکا ہے۔ عمران خان کے حالیہ دورۂ چین کے دوران اتنے ارب دے دیے ہیں کہ عمران خان کہتے ہیں وہ بتا ہی نہیں سکتے۔

پاکستان یقینا اینکر ٹیکنالوجی میں چین سے بہت آگے ہے۔ چین کے مصنوعی ذہانت والے اینکر صرف خبریں سنا سکتے ہیں ہمارے اینکر ذات میں خود سپر کمپیوٹر ہیں، پاکستان کی حکومت تو گرا ہی سکتے ہیں ساتھ ساتھ انڈیا اور امریکہ کو بھی سبق سکھا دیتے ہیں، فلکیات کا علم بھی جانتے ہیں اور معیشت کے بھی ماہر ہیں، دنیا کے واحد اینکر ہیں جو کرکٹ پر بھی تبصرہ کرنا جانتے ہیں اور دفاعی تجزیہ نگاری تو ماں کے پیٹ سے ہی سیکھ کر آتے ہیں۔

کیش کرنچ کی وجہ سے ہمارے ہاں چونکہ فارغ اینکروں کی بہتات ہے اس لیے امید ہے کہ حکومت انھیں چین ایکسپورٹ کرنے کا سوچے گی تاکہ چین کے ساتھ ہماری امپورٹ ایکسپورٹ میں کچھ توازن پیدا ہونا شروع ہو۔چینی اینکر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).