چک نمبر 136 میں نکاح ٹوٹنے کی داستان


پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے گاؤں چک نمبر 136 میں دس روز پہلے وہاں کے امام مسجد مولانا میاں خالد بشیر نے درجنوں مسلمانوں کے نکاح تڑوا دیے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس گاؤں میں شیعہ مسلمان خاتون انتقال کر گئیں۔ نماز جنازہ میں گاؤں کے تمام لوگ شریک ہوئے۔ نماز جنازہ کے بعد گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔ یہ تمام لوگ گھر میں پہنچے ہی تھے کہ اچانک مولانا میاں خالد بشیر نے مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے اعلان کیا کہ جن جن لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی ہے، ان تمام افراد کے نکاح ٹوٹ چکے ہیں۔ لہذا اب انہیں دوبارہ کلمہ پڑھنا ہوگا اور ایمان کی تجدید کرانی ہوگی۔ اس کے بعد پورے گاؤں میں کنفیوژن پھیل گئی کہ مولوی ایسا کیوں کہہ رہا ہے کہ تمام گاؤں والوں کے نکاح ٹوٹ گئے ہیں۔

اب بیچارے گاؤں والے مولوی کے پاس پہنچ گئے، امام صاحب فتوی لے کر آگئے کہ کیوں ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے؟ گاؤں کے لوگ سادہ ہوتے ہیں اور جلد جھانسے میں بھی آجاتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے مولوی کی بات مان لی۔ مولوی نے دھڑا دھڑ نکاح پڑھائے اور خوب رقم بٹوری۔ گاؤں والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ جب زرینہ بی بی انتقال کر گئیں تو گاؤں کے امام نے ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔ اس لئے وہ دوسرے گاؤں کی مسجد کے امام کو نماز جنازہ کے لئے بلا لائے۔ اس کے بعد مولوی خالد بشیر نے شور مچادیا کہ تمام گاؤں والوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے۔ آدھے سے زائد لوگوں کا مولوی نے دوبارہ نکاح پڑھوایا اور ان سے رقم بھی حاصل کی۔

اب عدت بھی مکمل نہیں ہوئی تھی تو دوبارہ نکاح کرایا گیا جس پر پھر شور مچ گیا کہ مولوی نے تو ظلم کردیا ہے۔ جس پر مولوی صاحب نے ایک اور چال چل دی اور کہا کہ عدت کے بعد تیسرا نکاح ہوگا۔ اس سارے واقعے کے بعد جب نکاح کے ایشو پر کنفیوژن پھیلی تو مولوی کو پولیس نے دھر لیا۔ مولوی کو مجسٹریٹ کی عدالت میں لایا گیا اور پوچھا گیا کہ مولوی صاحب آپ نے ایسی حرکت کیوں کی جس پر وہ آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔ اس کے بعد مولوی صاحب کو چھوڑ دیا گیا۔

اس سارے واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولوی نے کس آسانی سے لوگوں کو گمراہ کیا اور یہ کہ بیچارے لوگوں کو کیسے بے وقوف بنایا گیا؟ سوال یہ کہ کیا کسی کی نماز جنازہ پڑھنے سے نکاح ٹوٹ سکتا ہے؟ اس ملک میں عوام کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ جب ہر انسان کو فتوی دینے کا اختیار ہوگا تو پھر ایسا ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).