قرۃالعین حیدر کے افسانوں کی اسطوری جہتیں


قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں تاریخی عناصر کی کارفرمائی کو کسی ادبی و فنی جستجو کے بغیر محض ان کے گہرے تاریخی شعور سے وابستہ کر کے خشک اوربوجھل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ اگر غور کیا جائے تواندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے اپنے فکشن میں تاریخی واقعات کو تخلیقی انداز میں ایک خا ص نظم و ضبط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اپنے اس مخصوص انداز کو توانا رکھنے کے لیے اظہار کے مختلف طریقے استعما ل کرتی ہیں جن میں اساطیر کا استعمال بھی ان کے گہرے شعور کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

اساطیر انسانی زندگی اور اس کی سائیکی کا ایک حصہ ہے۔ کیوں کہ قدیم قصے اور عہد نامہ عتیق کے حقائق ہی ابتدائی تربیت کی تما م ترمشقوں، زندگی گزارنے کے طریقوں، سماجی و اخلاقی قدروں اور زندگی و موت کی حقیقت وغیرہ کے معلو مات کا سر چشمہ ہیں۔ ان اسطوری قصوں اور قیاسات میں بیشتر کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اس کے باوجود انسان ان پر یقین کرتا ہے۔ اس ضمن میں کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں :۔

”اساطیر نے اس حقیقت کو ایک قطعی شکل اور ہیئت دی ہے، جسے لوگوں نے وہبی طور پر محسوس کیا، اساطیر نے لوگوں کو سمجھایا کہ یوتاؤں کا رنگ ڈھنگ کیا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ نہ تو بے کار تجسس کی پیداوار ہیں نہ یہ تفریحی کہانیا ں ہیں۔ بلکہ یہ مردوں اور عورتوں کو ان طاقتور ہستیوں کے نقش قدم پر چلنا اور الوہیت کا خود تجربہ کرنا سکھاتی ہیں۔ “

اساطیر اس لیے وضع کی گئیں کہ وہ غیر یقینی انسانی صورتحال سے نپٹنے میں ہماری مدد کریں۔ اساطیر نے دنیا میں۔ اور اپنی حقیقی منزل متعین کرنے میں لوگوں کی مدد کی۔ ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے، مگر چونکہ ہماری انتہائی شروعات قبل تاریخ کی دھند میں گم ہو چکی ہیں، اس لیے ہم نے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں دیو مالائیں تخلیق کیں جو ہر چند تاریخی نہیں ہیں پر وہ اپنے ماحول، ہمسایوں اور رواجوں سے متعلق ہمارے موجودہ رویوں کو سمجھنے میں ہماری دست گیری کرتی ہیں۔ ”1

کیرن آرم اسٹرانگ کے اس مطالعہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر نے اخلاقیت، روحانیت، مفا پرستی، تہذیبی اقدار کی شکست وریخت اور دوسرے انسانی جذبات وخیالات کو بیان کرنے کے لیے مناسب اسطوروں کو استعمال کیا جس کی وجہ سے انھیں اپنی تحریروں میں فکری و جمالیاتی گہرائیاں برقرار رکھنے میں کافی مدد ملی۔

قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانے ”ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی“ ”سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات“ اور ”روشنی کی رفتار“ وغیرہ میں ایسی فضا خلق کی ہے جس سے ماورائی تجربے کا احساس ہوتا ہے۔ قاری ان فضاوں میں کھو کر لمحاتی طورپر خو د کو اپنی ذات سے الگ محسو س کر نے لگتا ہے۔ ”روشنی کی رفتار“ میں جدید زمانے کی ایک لڑکی پدما ٹائم راکٹ کے ذریعہ کئی سال پیچھے قبل مسیح کے زمانے میں چلی جاتی ہے۔ ماقبل مسیح کے ایک کردار ثوث سے اس کی ملاقات ہوتی ہے وہ پدما کو قدیم مصری تہذیب، مذہب، اخلاقیات اور دوسرے تمام اساطیری واقعات سے آگاہ کراتا ہے۔

پدما ایک ایسے زمانے کی لڑکی ہے جس میں تعقل پسندی نے فکر کے وجدانی اور اساطیری نتائج کو ابتدائی دور کے ناپختہ نظریات کہہ کر رد کر دیا ہے لیکن پدما کو انھیں قدیم قصے، کہانیوں کی واقفیت کی وجہ سے عبرانیوں کے درمیان بڑی عزت ملتی ہے۔ وہ لوگ پدماکی علمیت سے متحیر ہو کر اسے کاہنہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ تب پدما انھیں سائنسی دور کی تیز رفتاری کے بارے میں اور اس ٹائم مشین کی کا ر کردگی کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ لوگ پدما سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے دور میں لے چلو۔ پدماکہتی ہے :

”یہ ممکن نہیں۔ ہم اپنے اپنے وقت سے آگے یا پیچھے نہیں جا سکتے۔ اپنے اپنے دور کی آزمائش سہنا ہمارا مقدر ہے ہم تاریخ کو آگے یا پیچھے نہیں سر کا سکتے۔ کاش۔ وہ سب ہوتا جو ناہونا چاہیے تھا۔ میں اسرا ئیل کی نبیہ دیورہ کی طرح تم کو یہ سب بتا رہی ہوں۔ دیورہ چند صدیوں بعد تمہارے یہاں پیدا ہوگی مگر جس زمانے سے میں آئی ہوں، وہ انبیا ء کے بجائے سائنس دانوں کا دور ہے۔ “ 2

جیساکہ مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ تاریخ کا واقعاتی ترتیب اٹل ہے لیکن مصنفہ نے سائنسی ایجادات، مصری اور ایرانی اساطیر سے فائدہ اٹھا کرانتہائی پر اثر اور آ رکی ٹائپل بیان سے قدیم عہد کی صورتحال کو جدید دور کی مکاریوں سے وابستہ کردیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اساطیر ی واقعات اور کرداروں کی وجہ سے بیانیہ میں حقیقت کا پرتو نظرآتاہے جو قاری کو انسانی وجود کے لا زمانی تصور کی طرف لے جا تے ہیں۔ اور اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اسطور گرچہ واہمہ ہی سہی مگر اس دنیا کو ایک مثالی صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔

آسمان کو الوہیت سے وابستہ کرنے کا تصور 2000 قبل مسیح کا اسطورہ ہے جو اب تک مختلف تہذیبوں میں موجود ہے۔ اس کا استعمال افسانے میں بھی کیا گیا ہے۔ جب عبرانی سپاہی پدما کو اشوری جاسوس سمجھ کر اسے گرفتار کرنے کے لیے تلاش کر رہے ہوتے ہیں اسی دوران دو پہریدار اپنی سادہ لوحی کے باعث اسے دوشیزہ فلک سمجھ کر بڑی عزت و احترام سے دربار میں لے جاتے ہیں اور ان کا بادشاہ طلائی تاج و لباس فاخرہ زیب تن کر کے مودبانہ لہجہ میں کہتاہے :

”زہرہ جبیں دختر افلاک! یہ مصر کی عین خوش نصیبی ہے کہ اشوریہ سے جنگ کے دنوں میں مادر خداوند نے تم کو یہاں بھیجا اور فتح کی بشارت دی۔ مابدولت چونکہ خود رع دیوتا کے فرزند ارجمند ہیں، ہمارا فرض ہے کہ بطور مہمان نوازی و سپاس گزاری کل شام میں پانچ بجے تم سے شادی کر لیں۔ “

”دوشیزہ فلک مراقبے میں چلی گئیں۔ “ چیف کاہن نے آہستہ سے کہا۔ کمرے میں بڑی مودبانہ خاموشی طاری تھی۔ اس وقت پدما کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔ ایک موہوم سی امید۔ چند لمحوں کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور کمزور آواز میں کہا۔ ”تخلیہ تخلیہ۔ میں دیبی سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہوں۔ “ 3

سماوی خدا کے تصور کے تحت اس قوم نے پدما کو دوشیزہ فلک تسلیم کر کے اس کی عبادت اور احکام کی تعمیل شروع کردی جو کہ پدماکے لیے مضحکہ خیز تھا۔ لیکن اس پورے سحر انگیز ماحول کی وجہ سے وہ ان کی گرفت سے نکل کر ٹائم راکٹ کے ذریعہ واپس لوٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ثوث بھی غلطی سے چلا آتا ہے۔ چند سالوں قیام کے بعد اس دنیا کی عیاریوں سے اس کی طبیعت گھبرا جاتی ہے اور وہ اپنے پچھلے وقت میں جانے کی منتیں کرتا ہے۔

پدما اسے خبر دار کرتی ہے کہ یہ راکٹ روشنی کی رفتار کے آگے صرف چار بار سفر کر سکتی ہے اب یہاں سے جانے کے بعد تم دوبارہ نہ آسکو گے۔ بالآخر وہ دونوں جب راکٹ سے وہاں پہنچتے ہیں، میخائیل نام کا شخص ایک خط چھوڑ کر راکٹ لے کر غائب ہو جاتا ہے اور پدما ہمیشہ کے لیے 1306 ق۔ م میں واپس چلی جاتی ہے۔ اس افسانے کی اساطیری جہتیں یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ روحانی اور وہبی دنیا انسانی نفسیات کا ایک حصہ ہے اسی لیے بعض دفعہ خسارہ آمیز چیزوں کو بھی وہ معقو ل سمجھ لیتا ہے۔

اسی طرح ”ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی“ میں صوفیاء کے اقوال، پند و نصائح کو بیانیہ میں شامل کر نے کی وجہ سے اساطیری رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ انسان ہمیشہ کراماتی اشیاء کی طرف ملتفت ہوتا ہے تاکہ وہ اسے ماورائی اقدار کا تجربہ کرنے کے قابل بنائیں اور اس کی فوری ضرورتوں کی تکمیل کر سکیں۔ لہٰذا اس افسانے میں بھی افسانے کاواحد متکلم جو مرکزی کردار بھی ہے ایک عورت کے گم شدہ شو ہر کی تلاش میں نکلتی ہے اور بیکتاشی فقیر کے پاس جاتی ہے۔ لیکن وہ خود کسی مؤکل کی اختیار میں ہیں اور اس کی موت کے بعد کا انجام سوچ کر گریہ کرنے لگتے ہیں :

”درویش نے سر جھکایا اور رونے لگے پھر آ نسو آستین سے پونچھے اور خود بھی ایک قطعی غیر متعلق بات کہی۔ “ حانم ”حاجی سلیم نے فرمایا۔ “ میں اس لیے روتا ہوں کہ قانون خدا وندی کے مطابق میرا ہمزاد جو اندر بیٹھا ہے۔ میرے مرنے سے ٹھیک چالیس دن قبل مر جائے گا۔ ان چالیس دنوں میں، میں کیا کروں گا؟ کیوں کہ وہ مجھے خبردار کرتا رہتا ہے۔ ”

دفعتاً حاجی سلیم پھر چلائے۔ ”مولائے کائنات شاہ نجف نے فرمایا ہے۔ جو کچھ لکھا گیا ہے ہمیشہ موجود رہے گا۔ “ 4

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2