بنگلہ دیش: روہنگیا پناہ گزینوں کی میانمار واپسی کے اعلان پریشانی


مظاہرین

میانمار کی فوج کے مظالم سے جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کے پناہ گزین کیمپوں میں بنگلہ دیش کی جانب سے انھیں میانمار واپس بھیج دینے کے فیصلے کے بعد خوف اور الجھن پیدا ہو گئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے جمعرات کو پہلے گروپ کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ اس پر عمل کب ہو گا؟

دوسری جانب اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی زبردستی واپس بھیجا نہیں جا سکتا کیونکہ میانمار میں صورت حال محفوظ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان اور دیگر افراد میانمار سے بنگلہ دیش فرار ہو گئے تھے۔

یہ افراد میانمار کی مغربی ریاست رخائن میں ہونے والے تشدد اور فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے بھاگے تھے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

روہنگیا بحران: فوج کا ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف

برمی فوج نے خود کو الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا

روہنگیا بحران: سوچی کو عالمی ’جانچ پڑتال‘ کا ڈر نہیں

روہنگیا قتل عام: آنگ سان سوچی کی خاموشی پر تنقید

میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں پناہ

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین فوجی افسران سے ’روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے حوالے سے تفتیش کی جانی چاہیے جس کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ کارروائی کا مقصد شدت پسندوں کو نشانہ بنانا تھا۔

’وہ ہمیں مرنے کے لیے بھیج رہے ہیں‘

بنگلہ دیش پہنچنے والے زیادہ تر پناہ گزین بنگلہ دیش کے سرحدی قصبے کوکس بازار میں واقع کیموں میں رہائش پذیر ہیں جن کی حالت اچھی نہیں ہے۔

میانمار اور بنگلہ دیش نے اتفاق کیا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو آہستہ آہستہ میانمار واپس بھیجے گے۔

روہنگیا پناہ گزین

اس فیصلے نے پناہ گزیوں میں خوف پیدا کر دیا ہے کیونکہ ان میں سے متعدد کو میانمار میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا یا ان کے خاندان کے ارکان ہلاک ہوئے اور ان کے گھر جلائے گئے۔

ان کیمپوں میں سے ایک میں موجود بی بی سی کی یوگیتا لیمی نے بتایا کہ ان پناہ گزینوں کے پہلے گروپ نے جعرات کو روانہ ہونا تھا۔ یوگیتا لیمی کے مطابق پناہ گزینوں کو بتایا گیا ہے کہ انھیں واپس بجھوانے کے لیے بسوں کا انتظام کیا گیا ہے اور وہاں ایک ٹرانزٹ کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں تین دن کا راشن سٹاک کیا گیا ہے۔

روہنگیا پناہ گزین

ہماری نامہ نگار نے بتایا کہ یہ اعلان سننے کے بعد پناہ گزینوں نے احتجاج کیا اور کہا ’ہم واپس نہیں جانا چاہتے ہیں۔‘ پناہ گزینوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے رونا شروع کر دیا۔

بنگلہ دیش کے آبادکاری کمشنر محمد عبدل کالام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’ہم انھیں ان کی اپنی خواہش کے خلاف واپس جانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘

ایک 40 سالہ شخص نے بی بی سی کو بتایا ’ میں وطن واپسی کے بارے میں ڈرتا ہوں۔ اگرچہ وہ ہمیں یقین دہانی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مجھے یقین نہیں ہے، مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم وہاں جائیں گے تو وہ ہمیں مار دیں گے۔‘

روہنگیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ صرف اس شرط پر واپس جانے کے لیے تیار ہیں اگر میانمار انھیں شہریت دے۔

’اگر ہمیں واپس ہو گا تو وہ ہماری قسمت ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمیں وہاں مرنے کے لیے بھیج رہے ہیں۔‘

ایک اور پناہ گزین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ وہاں سے بھاگے تھے تاہم ہمارے بہت سے رشتہ داروں کو مار دیا گیا۔

انھوں نے روتے ہوئے بتایا ’وہ ہم پر وحشیانہ تشدد کرتے تھے۔ فوج ہمارے پاس آئی، انھوں نے ہمارے لوگوں کو مارا، ہمارے بچوں کو آگ میں پھینک دیا اور ہمارے گھر جلا دیے۔‘

’میں واپس جانے کے خیال سے بہت ہی خوفزدہ ہوں۔ ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘

روہنگلیا بنگلہ دیش میں کیوں ہیں؟

روہنگیا بچے

روہنگیا مسلمان میانمار میں بہت سی نسلی اقلیتوں میں سے ایک ہیں۔ حکام ان کو غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر دیکھتے ہیں، لہذا وہ ان کی شہریت اور دیگر حقوق کو مسترد کرتے ہیں.

میانمار میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جن میں ریپ اور بغیر سوچے سمجھے ہلاکتیں شامل ہیں۔

میانمار پر الزامات ہیں کہ وہ رخائن ریاست میں نسل کشی کر رہا ہے اور گذشتہ برس اگست میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں ایک مہینے کے دوران کم از کم 6700 روہنگیا افراد کو قتل کیا گیا۔

پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ساڑھے چھ لاکھ روہنگیا مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

روہنگیا

میانمار کی فوج عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ رخائن میں صرف روہنگیا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اس وقت شروع کیا تھا جب روہنگیا مسلح تنظیم اسرا نے 30 سے زائد پولیس چوکیوں پر حملے کیے۔

فوج نے اس آپریشن میں شہریوں کے قتل، دیہات کو نذر آتش کرنے، خواتین اور لڑکیوں کے ریپ اور لوٹ مار میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

خیال رہے کہ روہنگیا مسلمان بے وطن اقلیت ہیں جنھیں عرصہ دراز سے میانمار میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp