پاکستان کے نئے ’سفید فام مداح‘


اگر آپ پاکستانی ٹوئیٹر کو ویسے ہی فالو کرتے ہیں جیسے کہ ہم، تو یقیناً پچھلے دنوں ٹویٹر پر ہونے والی ایک بحث آپ کی نظروں سے ضرور گزری ہوگی۔

بات شروع ویسے ہی ہوئی جیسے اکثر ہوتی ہے، یعنی چپکے سے۔ ایک ٹوئیٹر صارف سِنتھیا رِچی کی بظاہر پشاور میں سائکل چلاتے اور ٹرک کے سامنے کھڑی تصاویر ٹوئیٹر پر پوسٹ ہوئیں۔ سِنتھیا رِچی نے ان تصاویر کے ساتھ ’مثبت پاکستان‘، ’ابھرتا پاکستان‘ اور ’ایک الگ ضاویہ‘ جیسے ہیش ٹیگز استعمال کیے۔ اور اس کے بعد ایک دم سے ٹوئیٹر پر گرما گرم بحث شروع ہو گئی!

https://twitter.com/CynthiaDRitchie/status/1061972823747579914

سِنتھیا رِچی ہیں کون؟

سِنتھیا رِچی کے ٹوئیٹر صفحے کے مطابق وہ ایک فری لینس پروڈیوسر اور ہدایت کار ہیں، کمیونِکیشنز کنسلٹنٹ ہیں اور خود کو ’ڈیوِلز ایٹووکیٹ‘ یعنی وہ جو بحث برائے بحث کرنے میں یقین رکھتے ہوں) کہتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ صحافی نہیں ہیں۔

امریکی شہری رِچی پاکستان میں اپنے سفر اور تجربات پر مبنی ایک بلاگ بھی لکھتی ہیں جسے مجموعی طور پر کافی مثبت ردعمل ملا ہے۔

لیکن ان کے اس ٹویٹ کے بعد وہ بحث شروع ہوئی کہ بس! ٹوئیٹر صارف گلمینے نے لکھا، ’پلیز بس کریں۔ ایسی کتنی پاکستانی خواتین اس طرح سائیکل چلاتی نظر آتی ہیں؟‘

https://twitter.com/gulmeenay/status/1062251529887989760

اب یہ رچرڈ ہیرِس کون ہیں؟

جس کے جواب میں رچرڈ ہیرس نے، جو خود کو کاروبار کے مالک کہتے ہیں، جنوبی ایشیا کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور بظاہر لاہور اور برسلز میں رہتے ہیں، ٹویٹ کی، ’شاید وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی خواتین عام مقامات پر اپنا حق جتائیں اور سائیکل اور سکوٹر چلانا شروع کریں۔‘

رچرڈ ہیرِس بھی اکثر پاکستان کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہیں۔

https://twitter.com/HarrisRichard77/status/1062268160278192128

اس پر ’گرلز ایٹ ڈھاباز‘، ایک مہم جس کا مقصد عام مقامات کو پاکستانی خواتین کے لیے محفوظ بنانا ہے، اور دیگر پاکستانی خواتین بھی اس بحث میں شامل ہو گئیں۔

گرلز ایٹ ڈاباز نے لکھا، ’ہم ایسا ہی کر رہے ہیں، پلیز ہماری محنت کو اس طرح مٹانے کی کوشش نہ کریں۔ ہم سڑکوں پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔‘

https://twitter.com/girlsatdhabas/status/1062733995010613248

گرلز ایٹ ڈھاباز نے یہ بھی واضح کیا کہ جب مقامی پاکستانی خواتین اس طرح سڑکوں پر نکلتی ہیں تو انہیں ایسی پزیرائی اور حوصلہ افزائی نہیں ملتی جیسی کہ ایک سفید فام خاتون کو مل رہی ہے۔

کئی ٹوئیٹر صارفین نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ سِنتھیا رِچی کوئی عام پاکستانی شہری نہیں، اسی لیے وہ یہ سب کر سکتی ہیں۔

شیرین مزاری کی بیٹی ایمان زینب نے ٹویٹ کی، ’کوئی رچرڈ بھائی کو بتا دیں کہ اگر سکیورٹی ایسٹیبلِشمنٹ ہماری حفاظت کی ویسے ہی ضمانت دیں جیسے سِنتھیا کی، تو ہم بھی خوشی سے ایسے علاقوں میں سائیکلوں پر بیٹھے پوز دیں گے جہاں اکثر خواتین کو گھروں سے نکلنے تک کی اجازت نہیں ملتی۔‘

https://twitter.com/ImaanZHazir/status/1062344677511303169

کھنچتے کھنچتے بحث تو بہت لمبی کھنچی، آئی ایس پی آر کا ذکر ہوا، کچھ نے سِنتھیا کی حمایت کی تو کچھ کو اس میں سازش نظر آئی، لیکن اس ساری بحث سے جو بات ہمارے ذہن میں آئی وہ یہ ہے کہ سِنتھیا اور رچرڈ کے علاوہ حال ہی میں کچھ ایسا اور بھی ’غیر ملکی‘ ٹوئیٹر اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جو پاکستان کے بارے میں باقاعدگی سے ٹویٹ کرتے ہیں اور بظاہر ایک ’مثبت‘ امیج پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مارٹن کوبلر، جرمن سفیر

جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر کے اردو اور انگریزی میں کیے گئے ٹویٹس تو آپ نے دیکھے ہی ہوں گے۔ وہ اکثر پاکستان میں اپنے سفر اور لوگوں سے ملنے کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہیں۔

چلیں سب نہاری کھائیں؟

سیاست اور سازشیں اپنی جگہ اس بات پر تو سبھی اتفاق کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی پاکستان آ کر یہاں کے کھانوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسی ہی جھلک فوڈ بلاگر ’مائگریشنالوجی‘ کے ٹوئیٹر اور فیس بُک اکاؤنٹ پر نظر آتی ہے!

https://twitter.com/migrationology/status/1061782403323064320

آپ کا تو پتہ نہیں، ہمارا تو نہاری کھانے کا شدید دل کر رہا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp