سعودی عرب اور ترکی میں جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ


People attend a symbolic funeral prayer for Saudi journalist Jamal Khashoggi, killed in the Saudi consulate in Istanbul, at the courtyard of Fatih mosque in Istanbul, 16 November 2018

دو اکتوبر کو استنبول میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش اب تک نہیں ملی ہے۔

مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے لیے سعودی عرب اور ترکی میں متعدد مقامات پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ہیں۔

جمال خاشقجی کے بیٹے صالح خاشقجی نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں سوگواران سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ مکہ المکرمہ اور مدینہ سمیت استنبول میں بھی جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔

دو اکتوبر کو استنبول میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش اب تک نہیں ملی ہے۔

خاشقجی سعودی حکمرانوں کے بڑے ناقدین میں سے ایک تھے۔

سعودی عرب کا موقف ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں، بلکہ ایک سینئیر انٹیلیجنس اہلکار نے دیا تھا۔

تاہم جمعے کے روز ہی امریکی میڈیا میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اندازوں کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔

سعودی عرب نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے جن میں کہا گیا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کسی امریکہ اہلکار کو بتایا تھا کہ جمال خاشقجی خطرناک اسلامی شدت پسند تھے۔

People attend a symbolic funeral prayer for Saudi journalist Jamal Khashoggi, killed in the Saudi consulate in Istanbul, 16 November 2018

جمعے کے روز ہی امریکی میڈیا میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اندازوں کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
An imam recites verses from the Koran under a tent set up to protect against the rain in Istanbul

جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ واشنگٹن، لندن، اور پیرس میں بھی پڑھائی جائے گی۔
Salah Khashoggi (second left), the son of murdered Saudi journalist Jamal Khashoggi, receives mourners at an events hall in the Saudi coastal city of Jeddah, 16 November 2018

صالح خاشقجی نے اپنے والد کے قتل کے بعد دارالحکومت ریاض میں بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان دونوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

گذشتہ ماہ امریکہ اور شعودی عرب کی دوہری شہریت رکھنے والے صالح خاشقجی نے اپنے والد کے قتل کے بعد دارالحکومت ریاض میں بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان دونوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

تاہم ان پر عائد سفری پابندی ہٹائے جانے کے بعد وہ امریکہ گئے تھے جہاں انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اپنے والد کو اپنے خاندان کے دیگر آنجہانی اراکین کی طرح مدینہ میں دفن کرنا چاہتے ہیں۔

اس سے قبل جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شدید صدمے میں ہیں اور انھیں یہ غم ہے کہ وہ جمال خاشقجی کو الوداع نہیں کہہ سکیں جس کی وجہ سے ان کی موت کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔

جمال خاشقجی کی غائبانہ نمازِ جنازہ واشنگٹن، لندن، اور پیرس میں بھی پڑھائی جائے گی۔

اس سے قبل سعودی عرب کے سرکاری وکیلِ استغاثہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں، بلکہ ایک سینئیر انٹیلیجنس اہلکار نے دیا تھا۔

ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں خفیہ ایجنٹس کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد ایک جان لیوا انجیکشن دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے، اور انہیں قونصل خانے سے نکلا گیا۔

جمال خاشقجی کا ’قتل‘ اور علاقائی سیاستا

سفری پابندی کا خاتمہ، جمال خاشقجی کے بیٹے امریکہ پہنچ گئے

خاشقجی خاندان: سعودی معاشرے میں جدّت کا علمبردار

وکیلِ استغاثہ نے اس سلسلے میں 11 افراد پر فرد جرم عائد کی ہے جن میں سے 5 کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی ہے۔ ان کے مقدمات عدالت کے حوالے کیے گئے ہیں، جبکہ اسی سلسلے میں 10 مزید افراد کے بارے میں تفتیش جاری ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ نے جمعرات کو ان 17 سعودی باشندوں پر معاشی پابندیاں عائد کر دی ہیں جو مبینہ طور پر صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ہیں۔

جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں سعود القحطانی بھی شامل ہیں جو سعودی فرمانروہ محمد بن سلمان کے سابق مشیر ہیں۔

امریکہ محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ ان افراد میں ماہر متعب بھی ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر آپریشن پر عملدرآمد کیا۔ انہی افراد میں استنبول میں سعودی قونصل جنرل بھی شامل ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں یہ پابندیاں اہم قدم ہیں۔

ریاض میں ہونے والی پریس کانفرنس میں نائب وکیل استغاثہ شالان بن راجح شالان نے ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ تفتیش سے یہ سامنے آیا ہے کہ ’قتل کا حکم دینے والا مذاکراتی ٹیم کا سربراہ تھا‘ جسے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ترکی بھیجا گیا تھا کہ وہ خاشقجی کو اپنی خود ساختہ ہجرت ختم کرکے سعودی عرب واپس آنا پر آمادہ کر سکیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس بارے میں ولی عہد کچھ نہیں جانتے تھے۔‘

شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انہیں اس آپریشن کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp